اردو خبر خاص

گزشتہ 30 سالوں میں طوفانوں، سیلاب، خشک سالی، ہیٹ ویوز اور جنگلاتی آگ کے سبب تقریباً 800,000 افراد اپنی جان سے گئے

جرمن واچ این جی او کی جانب سے جاری کردہ کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق ڈومینیکا، چین اور ہنڈوراس وہ ممالک ہیں، جو شدید موسمی حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

ان کی جانب سے جاری کردہ انڈیکس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ 30 سالوں میں طوفانوں، سیلاب، خشک سالی، ہیٹ ویوز اور جنگلاتی آگ کے سبب تقریباً 800,000 افراد اپنی جان سے گئے۔ ان قدرتی آفات کے باعث اقتصادی نقصان کا تخمینہ تقریباً 4.2 ٹریلین ڈالر (4.07 ٹریلین یورو) لگایا گیا ہے۔
اس رینکنگ میں سب سے اوپر ڈومینیکا،چین اور ہنڈوراس رہے ہیں۔

انسانی جانوں کا ضیاع اور معاشی نقصان
جرمن واچ کی پالیسی مشیر اور متعلقہ رپورٹ کی شریک مصنفہ، لِنا عادل نے کہا، ’’کلائمیٹ رسک انڈیکس کا مقصد بین الاقوامی موسمیاتی پالیسی کو ان حقیقی خطرات کے تناظر میں ترتیب دینا ہے جن کا سامنا ممالک کر رہے ہیں۔‘‘

وہ ممالک جو مختلف اقسام کے خطرات کا سامنا کرتے ہیں، وہ اس رینکنگ میں اوپر آسکتے ہیں۔ ایک طرف انسانی اثرات ہیں جیسے کہ ہلاکتیں، زخمی، بے گھر ہونا اور بے دخلی اور دوسری طرف شدید معاشی نقصان ہے۔ اس رپورٹ میں دونوں اقسام کو یکساں طور پر جانچا گیا ہے۔

ڈومینیکا، جو کیریبین کا وہ ملک ہے جو طوفانوں کے شکار ہے اور جو رینکنگ میں سب سے اوپر ہے، نے جرمن واچ کی جانب سے کیے گئے 30 سالہ مطالعہ میں طوفانوں سے بڑے اقتصادی نقصان اٹھائے ہیں۔ رپورٹ میں 2018 میں طوفان “ماریہ” کا ذکر کیا گیا، جس نے 1.8 ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچایا جو ڈومینیکا کے جی ڈی پی کا 270% تھا۔

یہ جزیرہ نما ملک نسبتاً زیادہ ہلاکتوں کا شکار بھی رہا ہے، جو اس کی کم آبادی کے پیش نظر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

چین اور ہونڈوراس شدید متاثر
چین اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے کیونکہ اس کی وسیع آبادی کے بڑے حصے کو بار بار آنے والی ہیٹ ویوز، طوفانوں اور سیلابوں نے متاثر کیا ہے۔ 2016 میں آنے والے سیلابوں نے 100 سے زیادہ افراد کی جان لی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا۔

ہونڈوراس، جو اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے، اپنے غریب ترین ممالک میں شامل ہونے کے باعث شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا خاص طور پر شکار ہوتا ہے۔ 1998

میں آئے سمندری طوفان ’مچ‘ نے 14,000 سے زائد افراد کی جانیں لی اور ملک کی 70% فصلیں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا۔
ہونڈوراس کی زامورا یونیورسٹی میں موسمیاتی امور کے ماہر، ڈیگو اوبانڈو بونیلہ کا کہنا ہے، ’’یہ واقعہ دو دہائیوں سے زیادہ پرانا ہے، لیکن اس کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ ہم آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘
اس سے 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جس نے ملک کی ترقی کے عمل کو روک دیا۔ ایک شعبہ جو ہونڈوراس میں آنے والے طوفانوں اور خشک سالی کا خاص طور پر شکار ہوا، وہ زراعت ہے۔

حونان، چین کے ہوا رونگ کاؤنٹی میں ریسکیو اہلکار پھنسے ہوئے شہری کو محفوظ مقام پر منتقل کر رہے ہیں

موسمیاتی تبدیلی سے ہر خطہ متاثر

اگرچہ عالمی جنوب کے ممالک کو سب سے زیادہ خطرات درپیش ہیں، لیکن اس انڈیکس کی فہرست میں اٹلی، یونان اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر 2022 میں، یہ ممالک شدید گرمی کی لہروں کی وجہ سے اس درجہ بندی میں مزید اوپر آئے۔
اس رپورٹ میں درج کیے گئے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے تمام ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں، چاہے وہ عالمی شمال ہو یا جنوب، عدیل نے کہا، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی شمال اب تک آفات کے خطرات سے نمٹنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے۔‘‘
رپورٹ میں جرمنی کے آحرتال (2021) اور اسپین کے ویلنسیا (2024) میں ہونے والی شدید سیلابوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس بات کی مثال ہیں کہ یورپی حکام ایمرجنسی کی حالت کا اعلان کرنے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ دونوں کیسز میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
عالمی شمال پر یہ دوہری ‌ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خطرات کو مؤثر طریقے سے منظم کرے بلکہ عالمی جنوب کی بھی مدد کرے، کیونکہ یہ ممالک دنیا میں سب سے کم کاربن اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
یہ بات ان کی اخراجات کو کم کرنے کی کوششوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ کیونکہ جب تک آلودگی پھیلانے والے ممالک فوسل ایندھن کا استعمال جاری رکھیں گے، موسمیاتی تبدیلیوں کا جو شدید اثر عالمی موسمیاتی خطرہ انڈیکس پر نظر آ رہا ہے، وہ زیادہ شدت کے ساتھ بار بار وقوع پذیر ہوگا۔