اردو خبر قومی

کیا بھارت شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کر دے گا؟

بنگلہ دیشی ٹربیونل نے سابقہ وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں اٹھارہ نومبر کو پیشی کے لیے طلب کر رکھا ہے۔ بھارت کے لیے اپنی سابقہ حلیف کو ڈھاکہ کے حوالے کرنا ایک بہت بڑا سیاسی اور سفارتی چیلنج ہو گا۔

بنگلہ دیش میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو عہدہ چھوڑ کر بھارت فرار ہونے پر مجبور کر دینے والے پر تشدد مظاہروں اور بد امنی کے مہینوں بعد بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے سابقہ وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔

استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ 77 سالہ حسینہ رواں برس موسم گرما میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں میں سینکڑوں لوگوں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار ہیں۔ ٹربیونل نے حسینہ کو 18 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

ٹریبونل نے انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ حسینہ اور ان کے ساتھ مورد الزام ٹھہرائے گئے 45 دیگر افراد کو اس تاریخ سے پہلے عدالت کے سامنے پیش کرے۔

بنگلہ دیش میں جولائی اور اگست میں طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہرے شیخ حسینہ کے اقتدار کا سبب بنے
بتایا گیا کہ حسینہ واجد اور ان کی عوامی لیگ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں، قتل اور اجتماعی قتل کی 60 سے زائد شکایات درج کی گئی ہیں۔

بنگلہ دیش مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ فعال کرے گا
حسینہ پانچ اگست کو تشدد کی اس بڑھتی ہوئی لہر کے درمیان ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت فرار ہو گئی تھیں، جس کا خاتمہ 1000 سے زیادہ لوگوں کی اموات کے ساتھ ہوا۔ ڈھاکہ کی عبوری حکومت نے ان کے فرار کے فوراً بعد ان کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کر دیا تھا۔

پھر بھی بھارتی اہلکار حسینہ کو نئی دہلی کے مضافات میں ایک محفوظ گھر میں سخت سکیورٹی میں پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی سکیورٹی اتنی سخت رکھی گئی ہے کہ یہاں تک کہ ان کی بیٹی صائمہ واجد، جو کہ عالمی ادارہ صحت میں جنوب مشرقی ایشیا کے لیے علاقائی ڈائریکٹر کے طور پر دہلی میں کام کرتی ہیں، وہ بھی ان سے ملاقات نہیں کر سکتی ہیں۔

بھارت نے حسینہ کو مشرق میں اپنے پڑوسی بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی لچک نہیں دکھائی۔ بنگلہ دیشی عبوری حکومت کے قانونی مشیر آصف نذرل نے کہا کہ اگر بھارت نے حسینہ کی حوالگی سے انکار کرنے کی کوشش کی تو ڈھاکہ سخت احتجاج کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی 2013 میں ڈھاکہ کے ساتھ کیے گئے مجرمانہ حوالگی کے معاہدے کے تحت ایسا کرنے کا پابند ہے۔

نذرل نے حال ہی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اگر بھارت ایمانداری سے اس (معاہدے) کی ترجمانی کرتا ہے تو بھارت یقینی طور پر حسینہ کو واپس کرنے کا پابند ہے۔‘‘

بنگلہ دیش میں مظاہروں پر قابو پانے کے لیے فوج تک تعینات کرنا پڑی تھی تاہم یہ احتجاج  شیخ حسینہ کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ہی رکا

تاہم اگر یہ جرم ‘سیاسی نوعیت‘ کا ہو تو اس معاہدے میں حوالگی سے انکار کی گنجائش موجود ہے۔

بھارت ‘سفارتی حکمت عملی‘ پر عمل پیرا
بھارتی وزارت خارجہ کے عہدیدار حوالگی سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے یہ کہتے ہوئے گریز کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم نے ”حفاظتی وجوہات‘‘ کی بنا پر بھارت کا سفر کیا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے نامہ نگاروں کو بتایا، ”سابق وزیر اعظم کے قیام سے متعلق میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ حفاظتی وجوہات کی بناء پر مختصر نوٹس پر یہاں آئی تھیں اور وہ اب بھی یہاں موجود ہیں۔‘‘

اس مسئلے نے نئی دہلی کو توازن قائم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت کو احساس ہے کہ حسینہ کی موجودگی ڈھاکہ میں نئی ​​عبوری انتظامیہ کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات اور تجارتی تعلقات استوار کرنے کی اس کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتی ہے، لیکن حسینہ نے بھی اپنے دور حکومت میں بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات استوار رکھے تھے۔

مجرمان کی حوالگی کے امور سے متعلق ماہر بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل کرن ٹھکرال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”شیخ حسینہ کے بارے میں بھارت کے فیصلے میں قانونی ذمہ داریوں، انسانی ہمدردی کے اصولوں اور سٹریٹجک مفادات میں توازن ہونا چاہیے۔ اہم امور میں قانونی تشخیص، انسانی حقوق کی ذمہ داریاں اور سفارتی حکمت عملی شامل ہیں۔‘‘

قانون اور سفارت کاری کے مابین لڑائی
ٹھکرال کے مطابق بھارت کے پاس حسینہ کی حوالگی کی درخواست کو مسترد کرنے کا اختیار ہے، خاص طور پر اگر سیاسی طور پر محرک الزامات اور بنگلہ دیش میں ممکنہ عدالتی کارروائی کے غیر منصفانہ ہونے کے بارے میں معتبر خدشات ہوں۔

ٹھکرال نے کہا، ”حوالگی کے معاملات میں، خاص طور پر جو سیاسی شخصیات سے متعلق ہوں، یہ ضروری ہے کہ ہم قانونی اصولوں کے تقدس کو بہتر سفارت کاری کے مقابلے میں برقرار رکھیں۔‘‘ ٹھکرال نے کہا، ”شیخ حسینہ کی صورت حال پر بھارت کا ردعمل نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو متاثر کرے گا بلکہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ملک کے عزم کی بھی عکاسی کرے گا۔‘‘

بنگلہ دیشی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس

حوالگی کی درخواست اور عدالتی چیلنج
جندال اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز کی پروفیسر سریرادھا دتا کا خیال ہے کہ اگر بنگلہ دیش حسینہ کی حوالگی کی درخواست پیش کرتا ہے تو بھارت فوری رد عمل ظاہر نہیں کرے گا۔

دتہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان مسائل میں وقت لگتا ہے، کیونکہ تکنیکی اور عدالتی عمل شامل ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو ایسی درخواست کے بارے میں سیاسی تحفظات پر غور کرنا پڑے گا۔‘‘

بنگلہ دیش میں بھارت کے سابق سفیر پنک رنجن چکرورتی نے نشاندہی کی کہ حسینہ کے پاس حوالگی کے عمل سے لڑنے کے لیے قانونی راستے موجود ہیں۔

چکرورتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”حسینہ کے پاس اسے معاملے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اختیار ہو گا، جس میں وقت لگے گا۔ اس کے علاوہ، سیاسی جرائم سے متعلق معاہدے میں ایسی شقیں ہیں جو حوالگی کے عمل پر روک لگاتی ہیں۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بالا آخر کیا ہوگا، لیکن میرا اندازہ ہے کہ نئی دہلی حکومت حوالگی سے انکار کر سکتی ہے۔‘‘

کیا بنگلہ دیش بھارت کو الگ کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ مالی سال 2022-23 میں دو طرفہ تجارت کا تخمینہ 15.9 بلین ڈالر (14.55 بلین یورو) لگایا گیا ہے۔ حسینہ کے دور میں بھارت بنگلہ دیش کے سب سے اہم ترقیاتی شراکت دار کے طور پر ابھرا اور ان کی بے دخلی سے قبل دونوں فریقوں کو آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت شروع کرنی تھی۔

بنگلہ دیش کی اقتصادی مدد کے بدلے میں بھارت مشترکہ سرحد پر انسانی اسمگلنگ، دراندازی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں جیسے سکیورٹی خطرات کو کنٹرول کرنے کے لیے حسینہ کی انتظامیہ پر بھروسہ کرنے کے قابل تھا۔

ڈھاکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے عبوری رہنما محمد یونس سے بات کی ہے اور عہد کیا ہے کہ نئی دہلی سرحد پار اپنے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔

ایسے میں محمد یونس کو اب خود بھی توازن دکھانے کے چیلنج کا سامنا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب شیخ حسینہ کے سینکڑوں متاثرین انصاف کے لیے عبوری حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں آئندہ سال متوقع نئے انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے بھارت کی حمایت کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور سیاسی استحکام کو بھی برقرار رکھنا ہے۔

Brahma Chellaney
@Chellaney
With an applauding Bill Clinton standing by his side, Yunus said in New York last month that the movement to overthrow Hasina, far from being spontaneous, had been “meticulously designed” and executed.

Now one of the movement’s student coordinators says, “Had we followed the law, then this revolution would not have occurred. If structures like the Dhaka metro had not been burned down or if policemen had not killed [by mobs], then this revolution would not have easily happened and we would not have seen Hasina’s downfall.”

Mobs captured dozens of policemen, beating them to death and hanging the bodies of some from bridges in Dhaka.