اردو خبر خاص

….افغانستان میں شراب نوشی پر تو پابندی ہے مگر وہاں اب شکر اور کیفین سے بھرپور انرجی ڈرنکس شہریوں میں بہت مقبول ہو رہے

افغانستان میں شراب نوشی پر تو پابندی ہے مگر وہاں اب شکر اور کیفین سے بھرپور انرجی ڈرنکس شہریوں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ محنت کش افغان باشندے ایسے ڈرنکس کو اکثر اب خوراک کی کمی پورا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

طالبان حکومت نے افغان معاشرے سے مغربی تہذیب کی بہت سی علامتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ تاہم جسم میں توانائی بڑھانے والے مشروبات، جو امریکی فوجوں کے ساتھ آئے تھے، اب بھی کافی مقبول ہیں اور اس نے مقامی صنعت کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

انیس سالہ ملاد غزنوی، جو اب صحت کی وجوہات کے باعث انرجی ڈرنک کا استعمال چھوڑ چکے ہیں، نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’’یہ بات واضح ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کی زندگی میں بہت مشکلات ہیں۔ یہ لوگ انرجی ڈرنکس کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ ہر وہ چیز استعمال کرتے ہیں جس سے انہیں وقتی سکون ملتا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق افغانستان کی 90 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

رواں برس مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق، 86 فیصد گھرانے سستا یا ایسا کھانا کھا رہے ہیں جو ان کی ترجیحات میں سب سے اوپر نہیں ہوتا۔ ایک تہائی سے زائد لوگوں نے کھانے کے اوقات کم کر دیے ہیں، جبکہ نصف سے زائد نے غذا کی مقدار کم کر دی ہے۔

چالیس سالہ گلزار روزانہ 14 گھنٹے کی مزدوری کے دوران انرجی ڈرنک ”ہٹ‘‘ کے چار کین پیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ”ہم یہاں پسینے میں شرابور، سارا دن محنت کرتے ہیں۔ تو جب ہم تھک جاتے ہیں تو انرجی ڈرنک پیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اگر وہ انرجی ڈرنک نہ پیئیں تو انہیں تھکاوٹ ہوتی ہے، ان کے سر میں درد ہوتا ہے اور وہ بالکل نڈھال ہو جاتے ہیں۔ تاہم ان مشروبات کے صحت پر انتہائی مضر اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

گلزار کی خوراک میں عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ مقدار سے دوگنی 100 گرام سے زیادہ چینی شامل ہے جبکہ کیفین کی مقدار چھ ایسپریسو کافی کے برابر ہوتی ہے۔ امریکہ میں خوراک، ادویات، اور طبی آلات کے معیار کو یقینی بنانے والے ادارے ایف ڈی اے کے مطابق کیفین کا استعمال بلند فشار خون، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، اضطراب اور بے خوابی کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم گلزار کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

مقامی برانڈز کی قیمت تقریباً 30 افغانی ہے، جبکہ درآمد شدہ مشروبات ”ریڈ بل‘‘ یا ”مانسٹر‘‘ بہت مہنگے ہیں اور اکثر لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ غریب ترین افغان، جو کم ہوتی ہوئی بین الاقوامی امداد پر انحصار کرتے ہیں، انرجی ڈرنکس نہیں خرید سکتے اس لیے روٹی اور کیفین والی سبز چائے پر گزارہ کرتے ہیں۔

تحقیقاتی فرم فیوچر مارکیٹ انسائیٹس کے مطابق انرجی ڈرنکس 1962 میں جاپان میں ایجاد ہوئے تھے۔ تاہم سن 2000 میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور رواں برس اس کے عالمی سیکٹر کا مجموعی حجم تقریباﹰ 40 بلین ڈالر ہوگیا ہے۔

صنعتی مرکز مغربی ہرات میں، پامیر کولا کمپنی روزانہ 10 لاکھ کین تیار کرتی ہے۔ کمپنی کے مطابق انرجی ڈرنک کی صنعت مجموعی طور پر افغانستان کے چار کروڑ شہریوں کے لیے اتنی ڈرنکس تیار کرتی ہے کہ ہر شہری کو روزانہ دو کین مل سکیں۔

پامیر کولا کے مالک 45 سالہ ظہیر شاہ بہادری کے مطابق یہ انرجی ڈرنکس ان غریب مزدوروں کے لیے بہترین متبادل ہے جن کو اچھی غذا دستیاب نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’اکثر مجھے لگتا ہے کہ یہ کاروبار اچھا ہے اور شاید مزید بہتر بھی ہو جائے گا۔‘‘