اردو خبر خاص

جب بلھے شاہ کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنائے جانے کی اجازت نہ دی گئی

مورخین کے مطابق حکمرانوں کے ساتھ اختلاف کے سبب وفات کے بعد بلھے شاہ کو قبرستان کے بجائے گھوڑوں کے اصطبل میں دفنایا گیا۔ عام لوگوں کے لیے وہ ایک بزرگ ہستی جبکہ پنجابی دانشوروں کے لیے مقامی کلچر اور مزاحمت کا استعارہ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کسی فنکار کی تخلیق اگر لوک کلچر کا حصہ بن جائے تو یہ اس کے فن کی معراج ہے۔ پنجاب کی ہزاروں سالہ تاریخ میں یہ اعزاز چند گنے چنے شاعروں کو ہی حاصل ہے، جن میں ایک نام بلھے شاہ کا ہے۔

”رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی، بلھیا کیہہ جانا میں کون؟ تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا، عِلموں بس کریں او یار، بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور،‘‘ جیسے ان کے کئی مصرعے نہ صرف پنجابی رہن سہن کا حصہ ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً بالی وڈ میں بھی گونجتے سنائی دیتے ہیں۔ بلھے شاہ کی شاعری اور شخصیت میں ایسا کیا کرشمہ ہے کہ اڑھائی سو سال بعد بھی مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

جب بلھے شاہ کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنائے جانے کی اجازت نہ دی گئی
بلھے شاہ اٹھارویں صدی کے مشہور صوفی شاعر تھے جنہوں نے موت تک اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قصور میں گزارا۔ ان کی اپنے مرشد شاہ عنایت سے والہانہ وابستگی بطور مثال پیش کی جاتی ہے۔ مشہور روایت کے مطابق ایک بار شاہ عنایت کسی بات پر بلھے شاہ سے روٹھ گئے اور کسی طرح مان نہیں رہے تھے۔ بلھے شاہ گوالیار گئے اور کلاسیکی رقص سیکھا۔ وہ جانتے تھے کہ شاہ عنایت کلاسیکی رقص کے دیوانے ہیں اور انہیں منانے کا یہی طریقہ کارگر ہو گا۔

یہیں سے ‘میں نچ کے یار منانا‘ جیسا خیال مقبول ہوا اور آج بالی وڈ سمیت مقامی زبانوں میں اس موضوع کے بے شمار گیت ملتے ہیں۔

کتاب ’قصور تاریخ کے آئینے میں‘ کے مصنف امجد ظفر علی لکھتے ہیں، ”بلھے شاہ مغلیہ سلطنت کے عالمگیری عہد کی روح کے خلاف ردعمل کا نمایاں ترین مظہر ہیں، قصور کے حکمرانوں سے اختلاف کی وجہ سے ان کا جنازہ دو دن کسی نے نہ پڑھایا اور نہ ہی انہیں شہر کے بڑے قبرستان میں دفن کرنے کی جگہ ملی۔”

عہد حاضر میں پنجاب کے بہترین مورخین میں سے ایک اقبال قیصر کا تعلق بلھے شاہ کے شہر قصور سے ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”بلھے شاہ کو جس جگہ دفنایا گیا وہ حکمرانوں کا اصطبل تھا، ایسا ان کی تحقیر کے لیے کیا گیا۔ آج ان حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں کو کوئی نہیں جانتا لیکن بلھے شاہ کے پرستار لاکھوں میں ہیں۔ اسے تاریخ کا انتقام کہتے ہیں۔”

گلی کوچوں کی عام زندگی سے بالی وڈ تک
1998 کی بالی وڈ فلم ‘دل سے‘ گلزار اور اے آر رحمان کا ماسٹر پیس سمجھی جاتی ہے، جس کا مقبول ترین گیت ‘چل چھیاں چھیاں چھیاں‘ بلھے شاہ سے براہ راست متاثر ہو کر لکھا گیا جس کا اعتراف گلزار نے اسٹیج پر کیا۔

’’رانجھن دے یار بلھیا، ہیر ہیر نہ آکھو اڑیو، او بلھے شاہ او یار میرے اور چلوں میں تیری راہ بلھیا،‘‘ جیسے درجنوں بالی وڈ گیت بلھے شاہ اور ان کی شاعری کو بطور ریفرنس استعمال کرتے ہیں اور یہ کلچر گذشتہ کچھ عرصے میں نمایاں نظر آتا ہے۔

دوسری جانب پنجاب کے گلی محلوں میں عام افراد کی روزمرہ زندگی اور لوک گیتوں میں بلھے شاہ کے حوالے عام ہیں۔

اس حوالے سے اقبال قیصر کہتے ہیں، ”معاشرے اور ریاستیں زندگی کا مخصوص پیٹرن وضع کرتے ہیں، جنہیں غیر معمولی فنکار چیلنج کرتا ہے۔ مثلاً بلھے شاہ معروف معنوں میں مذہبی شخصیت تھے نہ روایتی پیر۔ وہ ایک عام آدمی تھے جنہوں نے عام آدمی کی بات کی اور طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہر ثقافت اور مذہب کا فرد ان سے اپنا تعلق جوڑتا ہے کیونکہ ان کے اندر تعصب نہیں۔ دوسرا وہ پیچیدہ باتیں عام فہم انداز میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ لوک روایت میں وہی بات زندہ رہتی ہے جس میں کم اور سادہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے گہری بات کی جائے۔ بلھے شاہ کے ہاں یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری لوک دانش کا بہترین نمونہ ہے۔ عام لوگوں کے لیے وہ صوفی اور بزرگ ہستی ہیں جبکہ پنجاب کی دانشوروں کے لیے مقامی کلچر اور مزاحمت کا استعارہ ہیں۔”

بلھے شاہ کا مزار ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز
قصور میں واقع بلھے شاہ کے مزار پر ہر سال میلہ سجتا ہے، جو ایک طویل ثقافتی تاریخ رکھتا ہے۔ اقبال قیصر کہتے ہیں، ”بھٹو صاحب وہ پہلے حکمران تھے، جو بلھے شاہ کے مزار پر تشریف لائے، اس کے بعد مزارکا انتظام محکمہ اوقاف نے سنبھال لیا۔ ورنہ تقریباً اڑھائی سو سال تک عام افراد اس کی دیکھ بھال کرتے رہے، مزار کے سامنے ہندوؤں اور سکھوں کے گھر تھے جو طویل عرصے تک رضاکارانہ متولی رہے، بلھے شاہ کا مزار مذہبی تفریق سے بالاتر ہے۔” رواں برس میلے میں شرکت کے دوران ایک بزرگ کو دیکھا گیا، جو چراغ روشن کیے بیٹھے تھے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان بزرگ کا کہنا تھا، ”میں گذشتہ بیس برس سے پنجاب کے مختلف مزاروں پر جا رہا ہوں، تقریباً ہر جگہ عرس ہوتا ہے مگر بلھے شاہ کے ہاں میلہ لگا ہے۔ یہاں موسیقی ہے، منتیں مانگی جا رہی ہیں، جس کو دیکھو اپنی لہر میں مست ہے، ورنہ اب درباروں سے یہ سما رخصت ہوتا جا رہا ہے۔”

اقبال قیصر کہتے ہیں، ”سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور اقتدار سے قبل مزار کے رنگ ڈھنگ مختلف تھے، سالانہ میلے پر سرکس سے لے کر موت کے کنویں تک ہر چیز موجود ہوتی۔ ایک پوری دنیا آباد ہو جاتی جس کا سحر مہینوں طاری رہتا۔‘‘ تاہم قیصر کے بقول، ”ضیا کی حکومت میں ‘میلے‘ کو ‘عرس‘ میں تبدیل کر دیا گیا، سرکس اور تھیٹر جیسی ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ضیا الحق کی تو موت ہو گئی لیکن میلے کا اصل رنگ واپس نہ آ سکا۔”

=========

فاروق اعظم