اردو خبر قومی

بھارتی وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حفاظت کے حوالے سے 140 کروڑ بھارتی شہری پریشان ہیں

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حفاظت کے حوالے سے 140 کروڑ بھارتی شہری پریشان ہیں۔ ادھر دس برس بعد پہلی بار جشن آزادی
کی تقریب میں اپوزیشن رہنما کو بھی شامل کیا گیا۔

بھارت آج پندرہ اگست جمعرات کے روز اپنا 78واں یوم آزادی کا جشن منا رہا ہے۔ ملک کو آزاد ہوئے 77 برس ہوگئے ہیں اور اس طرح یہ آزادی کی 77ویں سالگرہ ہے۔ اس موقع پر ملک کا وزیر اعظم روایتی طور پر قومی پرچم لہرانے کے ساتھ ہی دہلی کے لال قلعے کی فصیل سے خطاب کرتا ہے۔

اس نوعیت سے وزیر اعظم نریندرمودی کا لال قلعے کی فصیل سے یہ دسواں خطاب تھا، جس کے دوران انہوں نے تقریبا سو منٹ تک تقریر کی۔ یہ ان کا اب تک کا سب سے طویل خطاب ہے۔ وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد ایسے پہلے وزیر اعظم بھی ہیں جنہوں نے مسلسل تیسری بار اقتدار میں واپسی کے بعد پندرہ اگست کو قوم سے خطاب کیا ہو۔

مودی نے کیا باتیں کہیں؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے طویل ترین خطاب کے دوران اپنی حکومت کی پالیسیوں اور کامیابیوں کو گنانے میں زیادہ وقت صرف کیا۔ انہوں نے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ان کی حکومت ملک کے لیے کیا کر رہی ہے۔

اس موقع پر مودی نے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا بھی ذکر کیا تاہم وہاں پر جاری سیاسی افراتفری کے بجائے ان کی توجہ اس بات پر تھی کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، “140 کروڑ بھارتی بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور اقلیتوں کی حفاظت کے حوالے سے کافی پریشان ہیں۔ بھارت بنگلہ دیش کی ترقی کا خیر خواہ رہے گا۔ ۔۔۔۔۔ بھارتی چاہتے ہیں کہ وہاں ہندوؤں اور اقلیتوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔”

واضح رہے کہ پانچ اگست کو بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ طلبہ کے احتجاج کے پیش نظر استعفی پیش کرتے ہوئے بھارت فرار ہو کر آئی تھیں اور وہ اب بھی بھارت میں مقیم ہیں۔

اس کے بعد کی صورتحال میں بنگلہ دیش کے مختلف مقامات پر ہندوؤں پر حملوں کی اطلاعات ہیں۔ ملک کی عبوری حکومت نے بھی اس پر کنٹرول کے لیے کئی اقدام کا بھی اعلان کا ہے۔

کامن سول کوڈ کے نفاذ کی وکالت
نریندر مودی نے اس موقع پر یونیفارم سول کوڈ کی جم کر وکالت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ بھی اس کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں “بار بار بحث کی ہے اور اس نے کئی بار حکم بھی دیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ موجودہ سول کوڈ تفرقہ انگیز ہے۔ “ملک کا ایک بڑا طبقہ مانتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ ہم جس سول کوڈ کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ دراصل ایک طرح سے فرقہ وارانہ سول کوڈ ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، “میں کہوں گا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک سیکولر سول کوڈ ہو ۔۔۔ تب ہی ہم مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے آزاد ہوں گے۔”

واضح رہے کہ بھارت میں مسلم اور ہندو پرسنل لاء جیسی دفعات موجود ہیں، جس کے تحت مسلمان یا ہندو عائلی معاملات اپنے مذہبی عقیدے اور شریعت کے مطابق سماعت اور فیصلے کے حقدار ہیں۔ اب کامن سول کوڈ کے نفاذ کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمان اپنے شادی، بیاہ یا طلاق جیسے معاملے میں شرعی قوانین پر عمل نہیں کر سکیں گے۔

خواتین کے تحفظ پر زور
وزیر اعظم مودی نے اس موقع پر خواتین کے تحفظ کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ ایسے افراد کو سخت ترین سزائیں ملنی چاہیں جو خواتین کو تشدد نشانہ بناتے ہیں، تاکہ یہ دوسروں کے لیے ایک سبق ثابت ہو۔

واضح رہے کہ بھارت میں آج کل کولکتہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے پر ہنگامہ برپا ہے۔ ہسپتال کے اندر ایک شخص نے حملہ کر کے ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور پھر انہیں قتل بھی کر دیا تھا۔ اس پر ڈاکٹروں نے ملک گیر ہڑتال کی اور اب اس کے خلاف کولکتہ میں احتجاج جاری ہے۔

حزب اختلاف کی شرکت اور تنازعہ
جب مودی نے سن 2014 میں اقتدار سنبھالا تھا اس کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ قائد حزب اختلاف کو جشن آزادی کے تقریب میں شرکت کا خصوصی انتظام دس برس کے بعد کیا گیا ہو۔

آج راہول گاندھی لال قلعے کی فصیل پر دوسری قطار میں آخری سیٹ پر بیٹھے نظر آئے۔ تاہم روایت یہ رہی ہے کہ حزب اختلاف کا رہنما پہلی صف میں بیٹھتا ہے اور اس حوالے سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔

پروٹوکول کے مطابق لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف، جس کا درجہ کابینہ کے وزیر کے برابر ہوتا ہے، کو ہمیشہ اگلی صف میں جگہ دی جاتی ہے۔ اگلی صف میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور مرکزی وزراء نرملا سیتارامن، شیوراج سنگھ چوہان، امیت شاہ اور ایس جے شنکر بیٹھے تھے۔ تاہم راہول گاندھی کو دوسری صف میں جگہ دی گئی۔

حکومت نے اس پر یہ وضاحت پیش کی کہ پہلی صف میں اولمپک میں میڈل جیتنے والے کھلاڑی بیٹھے تھے اس لیے راہول کو پیچھے بٹھایا گیا۔

واضح رہے کہ لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ سن 2014 سے خالی تھا، کیونکہ کسی بھی پارٹی نے ایوان زیریں کی طاقت کے دسویں حصے کے برابر سیٹیں حاصل نہیں کی تھی۔ سن 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں، کانگریس کی تعداد بڑھ کر 99 ہو گئی اور اس طرح راہول گاندھی کو حزب اختلاف کا رہنما منتخب کیا گیا۔

============
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی