اردو خبر دنیا

فرانس، جرمنی اور برطانیہ کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ ,’ایران اور اس کے اتحادی تنازعے کو بڑھانے سے باز رہیں‘

فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں مزید تاخیر نہیں ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایران اور اس کے اتحادیوں کو اس تنازعے کو مزید بڑھانے سے خبردار بھی کیا۔

ن رہنماؤں کی طرف سے یہ مشترکہ بیان گزشتہ دس ماہ سے جاری غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی میں کیے جانے والے خونریز ترین حملوں میں سے ایک کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، جرمن چانسلر اولاف شولس اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی طرف سے آج پیر 12 اگست کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ”لڑائی اب ختم ہو جانا چاہیے اور حماس کے قبضے میں موجود تمام یرغمالیوں کو رہائی ملنا چاہیے۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”غزہ کے باشندوں کو امداد کی فوری طور پر اور بلا روک ٹوک فراہمی اور تقسیم کی ضرورت ہے۔ اس میں مزید تاخیر نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

ان رہنماؤں نے مصری، قطری اور امریکی ثالثوں کی طرف سے جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ان کی انتھک کوششوں کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔

گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے اندر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک جنگ بندی کے لیے متعدد مذاکراتی دور ہو چکے ہیں جن میں سے ایک کے علاوہ اب تک سبھی ناکام ثابت ہوئے ہیں، جب نومبر کے آخر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوئی تھی۔

غزہ پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں میں شدت اور حماس کے سیاسی ونگ کے سرابرہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد اس تنازعے کے پورے خطے میں پھیل جانے کے خدشات کے تناظر میں بین الاقوامی ثالثوں نے اسرائیل اور حماس سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ فوراﹰ بحال کریں۔

حماس نے اتوار 11 اگست کو امریکی، قطری اور مصری ثالثوں پر زور دیا تھا کہ وہ ‘مزید مذاکرات‘ کے بجائے امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلان کردہ جنگ بندی معاہدے پر عمل کرائیں۔

‘ایران اور اس کے اتحادی تنازعے کو بڑھانے سے باز رہیں‘

یورپ کے تین اہم ترین ممالک کے ان سربراہان نے ایران اور اس کے اتحادیوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ”حملوں سے باز رہیں جو علاقائی تناؤ میں مزید اضافے کا سبب بن سکتے ہیں اور جنگ بندی پر اتفاق اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے کو بھی کٹھائی میں ڈال سکتے ہیں۔‘‘

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، جرمن چانسلر اولاف شولس اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے اس مشترکہ بیان کے مطابق، ”قیام امن اور استحکام کے اس موقع کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات کی ذمہ داری ان پر عائد ہو گی۔ کوئی بھی ملک یا قوم مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں مزید خرابی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی قوت بڑھانے کا فیصلہ
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اتوار 11 اگست کو اعلان کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان پیٹ ریڈر کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اتوار کے روز اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلینٹ کے ساتھ بات چیت کی اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا، جس میں علاقے میں امریکی فوجی صلاحیتوں میں اضافے سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا شامل ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے یو ایس ایس ابراہام لنکن نامی طیارہ بردار بحری بیڑے کو جلد از جلد خطے میں پہنچنے کا حکم دیا ہے۔ اس بحری بیڑے پر امریکہ کے جدید ترین ایف 35 لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں۔

غزہ میں فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار کے قریب
غزہ کی جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے سے ہوا تھا جس میں 1198 افراد مارے گئے تھے جبکہ 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی میں لے جایا گیا تھا۔

اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی میں زمینی اور فضائی حملوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 39,897 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ تاہم غزہ پٹی کی وزارت صحت کی جانب سے مرنے والوں میں عام شہریوں اور جنگجوؤں کی الگ الگ تعداد نہیں بتائی گئی۔

غزہ کے شمالی حصے میں ہفتہ دس اگست کو ایک اسکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 93 فلسطینی مارے گئے تھے۔ امدادی کارکنوں کے مطابق اس اسکول میں بے گھر ہونے والے فلسطینی خاندان پناہ لیے ہوئے تھے۔