اردو خبر قومی

بھارتی ریاست اتر پردیش میں ہندو فریق کو تاریخی گیان واپی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دی

گزشتہ روز عدالت کے فیصلے کے بعد ہی بنارس کی تاریخی گیان واپی کی جامع مسجد میں ہندوؤں نے پوجا پاٹھ شروع کر دیا۔ مسلم فریق نے عدالت کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بھارتی ریاست اتر پردیش کے معروف شہر بنارس کی ضلعی عدالت نے بدھ کی شام کو ہندو فریق کو تاریخی گیان واپی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے چند گھنٹے بعد ہی رات میں ہندوؤں نے مورتیوں کی پوجا کرنے کی تیاری شروع کی۔ اس طرح جمعرات کی نصف شب مسجد کے احاطے میں ہندوؤں نے اپنی مذہبی رسومات ادا کیں۔

فیصلے کے فوری بعد ہی مسجد کے آس پاس بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا تھا تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی سے نمٹا جا سکے۔ اس تناظر میں ریاست اتر پردیش کے مختلف دیگر حساس مقامات پر بھی سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔

بابری مسجد کی طرح ہی بنارس کی گیان واپی مسجد، جو دراصل گیان واپی کی جامع مسجد ہے، کے حوالے سے بھی ہندو تنظیموں کا یہ دعوی ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ مسجد ان کے ایک مندر کو مسمار کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ وہ اس مسجد کے مقام پر مندر تعمیر کرنے کی مہم کافی عرصے سے چلا رہے ہیں اور تنازعہ عدالت میں زیر سماعت بھی ہے۔

مسلم فریق ہندوؤں کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے اور وہ اس کی لڑائی عدالت میں لڑ رہے ہیں، تاہم ابھی تک انہیں اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلعی عدالت کے مجسٹریٹ کی مدت کار کا کل آخری دن تھا اور وہ اتنا اہم فیصلہ سنانے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔

گزشتہ شب مسجد میں کیا ہوا؟
بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر کے پاس واقع گیان واپی مسجد کے علاقے میں گزشتہ رات دیر گئے اس وقت سنسنی خیز سرگرمی دیکھنے میں آئی، جب ہندو عقیدت مند پوجا کے لیے مسجد پہنچنا شروع ہو ئے۔

ایک ہندو تنظیم، راشٹریہ ہندو دل کے اراکین کو مسجد کے قریب ایک نشان پر ‘مندر’ کا لفظ کنندہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ اسی وقت کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کے لیے بھاری تعداد میں فورسز پہنچنا بھی شروع ہو گئے۔

اس معاملے میں ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ جمعرات کی درمیانی شب مسجد کے احاطے میں ایک ہندو پجاری نے عبادت کی۔

انہوں نے لکھا، ”ایس جی نے عدالت کے احکامات پر تعمیل کی اور مورتیاں نصب کرنے کے بعد کے وی ایم ٹرسٹ کے ایک پجاری کی طرف سے شایان شان آرتی کا اہتمام ہوا۔ ان تمام دیوتاؤں کی، صبح کی منگلا آرتی، بھوگ آرتی، غروب آفتاب کی آرتی، سمیت روزانہ آرتی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔”

اطلاعات کے مطابق گیان واپی مسجد کے احاطے میں تہہ خانے کی جانب جو راستہ جاتا ہے، اسی کے داخلے پر دیوی نندی کا ایک بڑا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔

مسجد کے تہہ خانے میں چار کمرے ہیں اور ہندوؤں کا دعوی ہے کہ ان میں سے ایک کمرہ ایک ہندو پروہت کے خاندان کے قبضے میں تھا، جو وہاں رہا کرتے تھے۔

عرضی گزار اور اس خاندان کے ایک رکن نے عدالت میں جو درخواست دی تھی، اس کے مطابق ویاس خاندان کے ایک رکن سومناتھ ویاس سن 1993 میں تہہ خانہ بند کرنے سے پہلے تک اس میں پوجا کیا کرتے تھے۔

ان کی دلیل یہ تھی کہ موروثی پجاری ہونے کے ناطے انہیں عمارت میں داخل ہونے اور وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔ مقامی عدالت نے اسی کیس کی سماعت کے بعد گزشتہ روز ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایک ہفتے کے اندر تہہ خانے کے اندر پوجا ادا کرنے انتظام کیا جائے۔

مسلم فریق نے کیا کہا؟
مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ بنارس کی مقامی عدالت کے حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ان کے ایک وکیل معراج الدین صدیقی کا کہنا ہے، ”یہ سب سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ وہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے، جو بابری مسجد کیس میں کیا گیا تھا۔”

واضح رہے کہ ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد پر بھی ہندو فریق نے پہلے دعوی کیا تھا، پھر مسجد کے اندر مورتیاں رکھ دی گئیں اور پھر ایک مقامی عدالت نے بابری مسجد کے اندر ہندوؤں کو پوجا کرنے اجازت دے دی تھی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور عدالت نے مسجد کی جگہ مندر کے حوالے کر دی جہاں اب ایک شاندار رام مندر تعمیر ہو چکا ہے۔

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی