اردو خبر دنیا

امریکی جنگی جہاز نے یمن کی جانب سے بحیرہ احمر میں فائر کیے گئے ایک ڈرون اور ایک اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کو مار گرایا

بحیرہ احمر ان دنوں یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے، جس کی وجہ سے بڑے جہازرانی کے اس راستے میں جہازوں کی حفاظت کے لیے امریکہ کو ایک نئی فورس بنانے کے غور کرنا پڑا ہے۔

امریکی فوج نے کہا کہ جمعرات کو ایک امریکی جنگی جہاز نے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں فائر کیے گئے ایک ڈرون اور ایک اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کو مار گرایا۔

امریکی وسطی کمان (سینٹ کوم) کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ “یو ایس ایس میسن (ڈی ڈی جی 87) نے جنوبی بحیرہ احمر میں حوثیوں کی جانب سے داغے جانے والے ایک ڈرون اور ایک اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کو مار گرایا۔”

اس اہم آبی راستے سے تیل اور قدرتی گیس سے لے کر الیکٹرانکس اور کھلونوں تک کے لے جانے والے جہاز گزرتے ہے۔ حوثیوں نے اس اہم ترین آبی تجارتی گزرگاہ پر تجارتی جہازوں پر حملے تیز کردیے ہیں۔

حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ حملے غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کی حمایت میں کر رہے ہیں۔

حوثی باغیوں کے حملوں سے بحیرہ احمر میں جہازوں کے لیے مشکلات

جرمنی میں اسرائیلی سفیر رون پروسر نے جمعرات کے روز بحیرہ احمر میں آزادانہ جہاز رانی کی اہمیت پر زور دیا۔

پروسر نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا،” حوثی بحیرہ احمر میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ نہ صرف اسرائیل کے خلاف ہے بلکہ پوری عالمی برادری کے خلاف ہے۔”

اسرائیل نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے حملوں کا بدلہ لینے کے لیے غزہ میں حماس کی حکمرانی کی صلاحیتوں کو کچلنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ، یورپی یونین، جرمنی اور دیگر ممالک حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں۔

بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں کے پیچھے کیا کارفرما ہے؟
بحیرہ احمر، جہاں سے عالمی سمندری تجارت کا 12فیصد گزرتا ہے، سے گزرنے والے سمندری جہازوں پر حملوں نے امریکہ اور دیگر کئی ممالک کو بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک نئی فورس بنانے کے لیے مہمیز کیا ہے۔

دنیا کے کچھ بڑی شپنگ کمپنیوں نے بحیرہ احمر میں موجودہ صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے جہازوں کو طویل سفر کرکے اپنے منزل تک پہنچنے کی ہدایت دی ہے۔

امریکہ نے28 دسمبر کو یمن اور ترکی سے تعلق رکھنے والے ان گروپوں کے خلاف بھی پابندیاں عائد کی تھیں جنہوں نے مبینہ طورپر حوثیوں کی مالی مدد کی تھی۔