Uncategorized خاص

چمگادڑ کا گھونسلہ، سرخ پارہ، پرانے ریڈیو اور کالا بچھو – کروڑوں کی قیمت لگانے والے کون ؟تحریر- #ثنااللہ_خان_احسن

Sanaullah Khan Ahsan

karachi, pakistan
================
چمگادڑ کا گھونسلہ، سرخ پارہ، پرانے ریڈیو اور کالا بچھو
کروڑوں کی قیمت لگانے والے کون ؟

فراڈ یا حقیقت؟
اب سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں بھی یہ افواہ پھیلی تھی کہ چمگادڑ کے گھونسلے میں یہ سرخ پارہ پایا جاتا ہے اور اس کی قیمت لاکھوں ڈالر میں ہوتی ہے۔ یہ افواہ پہلے ایران میں پھیلی اور وہاں سے پاکستان آئ۔ آپ کو فیسبک، گوگل اور یو ٹیوب پر ایسے سینکڑوں اشتہارات ملیں گے جن میں ان کی خریداری کے لئے لاکھوں کی پیشکش کی گئ ہے۔

حالانکہ چمگادڑ گھونسلہ نہیں بناتی بلکہ غاروں وغیرہ کی چھت سے الٹی لٹک جاتی ہے۔ آپ یو ٹیوب پر ایسی بہت سی وڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں جس میں چمگادڑوں کے غار کی چھت سے مٹی کے عجیب غبارے نما اسٹرکچرز لٹکے ہوئے ہیں جو لوہے کی راڈ قریب لانے پر باقاعدہ حرکت کرتے ہیں جیسے ان کے اندر مقناطیس بھرا ہو۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ خاص طور پر KPK میں ان کی تلاش میں چمگادڑوں کے رہائشی مقامات کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ان کی قیمت کروڑوں روپے بتائ جاتی تھی۔

جب کچھ سیانوں نے اعتراض کیا کہ چمگادڑ گھونسلہ نہیں بناتی تو پھر یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ چمگادڑ اپنے انڈے دینے کے لئے یہ مٹی کا گھونسلہ بناتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک سفید جھوٹ ہی تھا کیونکہ چمگادڑ ممالیہ ہے جو انڈے نہیں بچے دیتی ہے۔


کئی ایسے اشتہارات ملیں گے جن کی تصویروں میں اسے ایک بڑی پلیٹ میں سرخ رنگ کی ایک مائع گولی کی شکل میں دکھایا جاتا ہے۔ اس تصویر کے ساتھ ہی ایک کاغذ پر ایک ٹیلی فون نمبر بھی دیا گیا ہوتا ہے تاکہ کوئی بے وقوف اسے فروخت کرنے والے کا نمبر لگائے۔
’اشتہار میں درج ہو گا کہ صرف ’سنجیدہ افراد‘ رابطہ کریں۔ ’ہمیں آپ کی قوتِ خرید کا ثبوت چاہیے ہے پھر ہم آپ کو اس مادّے کے وجود کے بارے میں ثبوت دیں گے۔‘

اسی طرح ایک مہم سیاہ بچھوؤں کے بارے میں بھی شروع ہوئ تھی۔ کالے بچھووں کے لئے لاکھوں ڈالرز کی آفر ہوتی تھی۔ پورے پاکستان میں لوگ کالے بچھووں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ سینکڑوں چودھریوں وڈیروں زمینداروں نے اپنے ملازمین ان کالے بچھووں کی تلاش میں لگا دئے تھے۔ کشمیر میں یہ کالے بچھو کا بزنس بہت زوروں پر تھا اور بتاتے ہیں کہ غیر ملکی مقامی ہوٹلوں میں ٹھہرے تھے جو یہ بچھو خرید رہے تھے۔ بچھو خریدنے سے پہلے یہ باقاعد بچھو کا وزن اور کچھ دوسرا معائنہ کرنے کے بعد ہی رقم ادا کرتے تھے۔ لیکن کالے بچھو کے زہر سے واقعی قیمتی ادویات اور ویکسین وغیرہ تیار کی جاتی ہیں۔

اس زمانے میں یہ افواہ اڑی تھی کہ چمگادڑ کے گھونسلے میں موجود اس سرخ پارے کی مدد سے انتہائ تباہ کن ایٹمی یا نیوکلئر دھماکہ خیز مواد تیار کیا جاسکتا ہے اور افغانستان کی کچھ جہادی تنظیمیں اور د ا ع ش وغیرہ کے اھلکار اس کو منہ مانگے دام خرید رہے ہیں۔ کوئ اس کو اکسیر اعظم بتاتا تھا۔ اس خیال کا ذکر قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان کیمیا دان اور فلسفی جابر بن حیان کی کتابوں میں ملتا ہے جس نے لکھا تھا کہ ’تاریخِ عالم میں اس کُرّہِ ارض پرتیار کیا جانے والا سب سے زیادہ قیمتی الاکسیر اہرامِ مصر میں چھپایا گیا ہے۔‘

کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ سرخ پارہ جن بھوتوں والے چمگادڑوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اور اس طرح، جیسے کہ اس کی منطق بنتی ہے، اس سرخ پارے میں وہی خصوصیات ہوتی ہیں جو کہ جن بھوتوں والی فلموں کے ویمپائیرز میں نظر آتی ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کے ذریعے جنوں پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔یو ٹیوب پر کچھ ایسی ویڈیوز ہیں جنھیں لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ عام طور پر ایک سرخ قطرے کی شکل میں چیز پلیٹ میں دکھائ جاتی ہے ۔یہ قطرہ لہسن سے دور بھاگتا ہے، اور سونے کی طرف کھنچتا ہے۔ لیکن جب اس کے سامنے آئینہ رکھا جاتا ہے تو اس قطرے کا اُس میں کوئی عکس نظر نہیں آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ وڈیوز گرافکس کی مدد سے بنائ گئ ہونگی۔
چمگادڑ کے گھونسلے کے بعد اسی دوران یہ پرانے ریڈیوز کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ یہ پرانے ریڈیو سیٹس دراصل سالڈ اسٹیٹ ٹرانسسٹرز یا الیکٹرونکس کے استعمال سے پہلے کے ہیں جن میں ریزسٹرز اور کیپیسیٹرز کی جگہ بلب نما شیشے کے مختلف سائز کے ویکیوم والوز استعمال کئے جاتے تھے۔ انہی میں سے کسی والو کے اندر یہ سرخ مرکری کی موجودگی بھی بتائ جاتی تھی۔ مختلف اشتہارات میں ان پرانے ریڈیوز کی خریداری کے لئے لاکھوں روپیوں کی پیشکش کی جاتی تھی۔ اگر کوئ فروخت کنندہ اپنا پرانا ریڈیو فروخت کے لئے پیش کرتا تو اس سے مطالبہ کیا جاتا کہ اپنا ریڈیو کھول کر دکھائیں اس کے بعد ہی ہم خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کریں گے۔
‎میں نے پرانے ریڈیوز کی اندرونی ایسی تصاویر دیکھی ہیں جن میں ریڈیو کے پُرزوں یا بہت پرانے ٹی وی کے درمیان ایک راڈ لگا ہوا ہے جس میں کوئ سرخ سیال بھرا ہوتا ہے۔ لوگ اس سرکٹ بورڈ کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کو تیار تھے۔

سرخ پارے’ کے بارے میں شاید بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں گے۔ سرخ پارے’ کا نام سب سے پہلے 1970 میں استعمال ہونا شروع ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ نیوکلیئر آلات میں استعمال ہونے والی کوئی چیز ہے۔ جس کے بعد مختلف دہائیوں میں یہ ‘فراڈ’ کی مختلف شکلوں میں پیش ہونا شروع ہوگیا۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ مائع شکل میں ہے تو کھی اس کو پاؤڈر بتایا جاتا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس سے ایٹم بم بھی بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ اسے کسی بھی میزائل میں استعمال کرنے سے میزائل درست ٹارگٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ سرخ پارے کے بارے میں لوگ اتنے متجسس ہوگئے کہ روس سمیت یورپ کے کچھ ممالک میں اس کی فی کلو قمیت 440 ہزار ڈالر سے لے کر پانچ لاکھ ڈالر تک پنچ گئی تھی۔’

آج بھی اگرآپ یوٹیوب پر جائیں تو آپ کو ‘سرخ پارے’ کے حوالے سے ہزاروں ویڈیوز اور مختلف اشتہارات دیکھنے کو ملیں گے، جن میں یہی کہا جا رہا ہوتا ہے کہ یہ پارہ اتنے ہزار ڈالر فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔


سعودی عرب میں اس ‘سرخ پارے’ کی تلاش کے حوالے سے 2009 میں ایک افواہ پھیلی تھی کہ سنگر کمپنی کی بنی سلائی مشین میں سرخ پارے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سعودی گزٹ کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق جب یہ افواہ پھیلی تو لوگوں نے اس سلائی مشین کو خریدنا شروع کردیا او اس وقت کچھ لوگوں نے ایک مشین 50 ہزار ڈالر تک میں بھی خریدی تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اس کو واپس فروخت کرنے سے کروڑوں روپے کمائیں گے۔ اس افواہ کے بعد سعودی حکومت نے تحقیقات شروع کی تھیں تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ افواہیں کس نے پھیلائی تھیں۔ اس وقت یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ کچھ غیر ملکی ان ہی مشینوں کو لاکھوں ڈالرز میں خرید رہے ہیں۔
سنہ 2015 میں نیو یارک ٹائمز نے خبر دی تھی کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ نامی گروہ کے کچھ ارکان کو ترکی میں سرخ پارے کو خریدنے کی کوششوں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

اور برطانیہ میں سنہ 2004 میں تین افراد پر دہشت گردی کی فردِ جرم عائد کی گئی تھی، اور یہ بھی سرخ پارے کو خریدنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران بتایا گیا کہ کس طرح ایک خفیہ بھیس میں ایک رپورٹر، مظہر محمود، جو نیوز آف دی ورلڈ کے جعلی شیخ کے نام زیادہ مشہور ہے، نے ایک کلو گرام سرخ پارے کو فروخت کرنے کا ڈرامہ رچاتا رہا۔
دوسری طرف سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس میں موجود ہزاروں کی تعداد میں ایٹم بموں کے بارے میں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ روس کی ایٹمی لیبارٹریز میں یہ سرخ پارہ نامی مادہ موجود ہے جس سے تیار شدہ بیس بال سائز کا بم ایک تباہ کن ایٹمی دھماکے کی طاقت رکھتا ہے۔
انٹرنیٹ پر آپ کو ان ہی جعلی سکیموں کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی ویڈیوز ملیں گی، جن میں بتایا جاتا ہے کہ ‘سرخ پارہ’ نیوکلیئر بم میں استعمال ہوتا ہے جبکہ ایک ‘سبز پارہ’ ہے جو جنسی تسکین بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ ان سکیموں میں سب سے قیمتی پارے کو ‘بلڈ اپ دی سلیوز’ کہا جاتا ہے جو جنات کو قابو کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔


حقیقی سرخ پارہ
آخر میں اس بات کا ذکر کردیا جائے کہ ایک ایسی سرخ رنگ کی دھات جس میں پارہ ہوتا ہے وہ حقیقت میں وجود رکھتی ہے۔ اس کا کیمیائی نام ’مرکری سیلفائئڈ‘ ہے، اور یہ زیادہ قیمتی دھات نہیں ہے۔ اسے بعض لوگ شنگرف بھی کہتے ہیں اگرچہ یہ مٹی کے برتن کو سجانے کے کام آتی ہے، اس کا کسی شفا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ شاید یہ نقصان دہ ثابت ہو۔ اس لیے نہیں کہ یہ ایک انتہائی آتش گیر مادّہ ہے، بلکہ اس لیے کہ عمومی سطح کا پارہ انسان کے لیے مضرِ صحت ہے۔

اتنے معروف مقدموں اور اتنی مرتبہ اس مادّے کے پول کے کُھل جانے کے باوجود بھی، سرخ پارے کے بارے میں لوگوں کے خیالات آج بھی قائم ہیں۔ وہ اس کو حقیقت سمجھتے ہیں۔ اور اب یوٹیوب کی ویڈیوز اور آن لائین اشتہارات کی وجہ سے یہ فریب اگلی نسلوں میں منتقل ہو چکا ہے۔ اب بھی یہ سرخ پارے کے خریدار موجود ہیں۔ یہ بات اب بھی ایک راز ہے کہ آخر یہ سرخ پارہ خریدنے والے کون لگ ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ یو ٹیوب پر چمگادڑوں کے غار کی چھتوں سے لٹکے غبارہ نما اسٹرکچرز کیا ہیں؟
حوالہ جات: مختلف ویبسائٹس، بلاگز، میگزینز،اور bbc کے مضامین سے مدد لی گئ۔

تحریر
#ثنااللہ_خان_احسن