اردو خبر خاص

مختار تلہری ثقلینی بریلی…By…*شاہجہاں پور: اردو ادب کا درخشاں ستارہ*

Mukhtar Tilhari Saqlaini Bareilly
=================
·
*شاہجہاں پور: اردو ادب کا درخشاں ستارہ*
شاہجہاں پور اردو ادب کا وہ زرخیز خطہ ہے جس نے ہمیشہ ادب کے آسمان پر اپنی انفرادی روشنی بکھیری ہے۔ یہاں کی فضاؤں میں سخنوری کی خوشبو بسی ہوئی ہے، اور ہر گوشہ اردو کے تئیں محبت سے معمور ہے۔ اس شہر نے اردو ادب کو وہ نایاب ہیرے عطا کیے جن کی چمک آج بھی دلوں کو منور کرتی ہے۔

دل شاہجہاں پوری، نسیم شاہجہاں پوری، اور ساغر وارثی جیسے بے مثال شعرا شاہجہاں پور کی ادبی تاریخ کے ایسے درخشاں نام ہیں جنہوں نے اپنی فکر، اپنے جذبے اور اپنی سخن فہمی سے گلشنِ ادب کو سرسبز و شاداب رکھا۔ ان حضرات نے نہ صرف اپنی ذات کے چراغ روشن کیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کے مینار قائم کیے۔

آج بھی شاہجہاں پور کی زمین ادب کے چراغ روشن کر رہی ہے۔ عہدِ حاضر میں بھی کئی نمائندہ شعرا اس روایت کو نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھا رہے ہیں، جیسے کہ خالد علوی،وسیم مینائی، حمید خضر، اصغر یاسر، فہیم بسمل، راشد ندیم، اختر شاہجہاں پوری، عشرت صغیر، راشد حسین راہی جن کی شاعری میں نہ صرف روایت کی خوشبو ہے بلکہ جدید تقاضوں کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے اشعار میں وہی سوز و ساز ہے جو دل شاہجہاں پوری کے کلام میں ملتا تھا، وہی روانی جو ساغر وارثی کے اشعار کی پہچان تھی۔

ادب کے اس کارواں کو رواں دواں رکھنے میں مقامی انجمنوں، مشاعروں اور ادبی نشستوں کا بھی اہم کردار رہا ہے، جو نوجوان شعرا کو نہ صرف موقع فراہم کرتی رہیں بلکہ ان کی رہنمائی بھی کرتی رہیں۔ شاہجہاں پور آج بھی اردو ادب کے نقشے پر ایک روشن ستارے کی مانند چمک رہا ہے، اور اس کی یہ چمک آنے والے وقت میں مزید تابناک ہو گی۔ ان شاءاللہ
عہد حاضر کی نمائندگی کرنے والے معتبر شاعر محترم خالد علوی صاحب اپنی انفرادی لب و لہجے اور کلاسیکی روایت سے جڑی جدید طرزِ اظہار کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی غزلیں سادگی، سچائی اور جذبے سے لبریز ہوتی ہیں، جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہیں۔

خالد علوی ایک معتبر اور کہنہ مشق شاعر ہیں جن کا کلام فکری گہرائی، رمزیت، اور کلاسیکی روایت سے جُڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری میں انسانی تجربات، فلسفیانہ نکات، اور سماجی مشاہدے خوبصورت انداز میں یکجا ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کے انتخاب میں نہایت محتاط اور پُراثر اسلوب رکھتے ہیں۔

نمونے کے طور پر اُن کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

ایک چادر میں سمٹ سکتا ہے انساں کا وجود
خود کو پھیلائے تو یہ سارا جہاں بھی کم ہے

یہ شعر انسانی وجود کی وسعت اور انکساری دونوں پہلوؤں کو نہایت خوبی سے بیان کرتا ہے۔ “ایک چادر” استعاراتی طور پر سادگی، کفایت یا زندگی کی محدودیت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن اگلی سطر میں شاعر بتاتا ہے کہ اگر انسان اپنی صلاحیتوں، فکروں یا تمناؤں کو وسعت دے تو یہ پوری کائنات بھی اس کے لیے ناکافی ہو سکتی ہے۔ یہ شعر خود شناسی، روحانی وسعت، اور انسانی امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اُن کے انجام سے واقف ہی نہیں ہے شاید
دھوپ میں موم کے پتلوں کو بنانے والا

یہ شعر بڑے گہرے استعارے سے بھرا ہوا ہے۔ “دھوپ میں موم کے پتلوں” کا تصور ناپائیداری، نادانی، اور وقتی خوبصورتی کے پیچھے چھپے زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔ شاعر اُس شخص کو مخاطب کرتا ہے جو وقتی شہرت یا دنیاوی دکھاوے میں مصروف ہے لیکن اُس کے انجام کی خبر نہیں رکھتا۔ یہ نہ صرف ایک تنبیہ ہے بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ نکتہ بھی پیش کرتا ہے کہ حقیقت سے غافل انسان آخرکار خسارے میں رہتا ہے۔
مجموعی تاثر؛

خالد علوی کے یہ اشعار نہ صرف فنی خوبیوں سے مالامال ہیں بلکہ فکری طور پر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں فلسفہ، نفسیات، اور سماجی مشاہدے کو ایک خوبصورت شعری قالب میں ڈھالتے ہیں۔ یہی وہ صفات ہیں جو کسی بھی شاعر کو “معتبر” بناتی ہیں۔

استاذ الشعراء مرحوم نسیم شاہجہاں پوری کے فرزند ارجمند جناب وسیم مینائی صاحب اردو ادب کے معروف شعرا میں سے ہیں جنہوں نے عرصہ دراز سے اردو زبان کی بالخصوص غزل کے میدان میں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی رنگ بھی جھلکتا ہے اور جدید حسیت بھی پائی جاتی ہے۔ ان کا کلام عشق، درد، زندگی کے تجربات اور انسانی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔

یہاں پر ان کے دو اشعار پیش کر رہا ہوں
یہ دونوں اشعار وسیم مینائی کے تخلیقی شعور، زندگی کے تجربات، اور انسانی رویّوں کی گہرائی پر مبنی ہیں۔ آئیے ان پر الگ الگ تبصرہ کرتے ہیں:
شعر اول:

“دور تک ہم اپنے قدموں کے نشان چھوڑ آئے ہیں
آنے والے قافلوں کو راستہ مل جائے گا”
یہ شعر ایثار، رہنمائی، اور دور اندیشی کا مظہر ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے اپنی جدوجہد، قربانی، اور محنت کے نقوش زمین پر چھوڑے ہیں تاکہ جو لوگ

بعد میں آئیں، وہ بھٹکیں نہیں، انہیں ایک واضح راستہ ملے۔
یہ ایک مثالی سوچ ہے، جو رہنماؤں، مفکروں اور اصلاح پسندوں کی علامت ہوتی ہے۔ یہ شعر نہ صرف فخر کا اظہار ہے بلکہ خدمتِ خلق کی اعلیٰ مثال بھی ہے۔

شعر دوم:
اب تو ہر گام پہ رسوائی ملے گی تم کو
تم نے کم ظرف کو ہمراز بنایا کیوں تھا
یہ شعر ایک تلخ تجربے اور مایوسی پر مبنی ہے۔ شاعر کسی شخص کو تنبیہ کر رہا ہے کہ اُس نے ایک نامناسب، کم ظرف شخص پر بھروسا کر کے اپنی عزت داؤ پر لگا دی۔

“کم ظرف کو ہمراز بنانا” یعنی کسی ایسے شخص کو رازدار بنانا جو اس کی قدر نہیں جانتا، شاعر کے نزدیک سراسر نادانی ہے۔ نتیجہ رسوائی اور پشیمانی ہے، اور اس میں انسانی تعلقات کے نازک توازن کی طرف اشارہ ہے۔
مجموعی تاثر:

ایک طرف پہلا شعر روشنی اور رہنمائی کا استعارہ ہے، تو دوسرا شعر اعتماد کے ٹوٹنے اور اس کے انجام کا آئینہ ہے۔ دونوں اشعار مل کر وسیم مینائی کے شعور، گہرے مشاہدے، اور الفاظ پر مہارت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اصغر یاسر صاحب نے شعری اظہار کو صرف فن ہی نہیں بلکہ ایک فکری تحریک کا درجہ دیا۔ ان کا کلام انسانی جذبات، سماجی حقیقتوں اور تہذیبی قدروں کا عکاس ہے۔

اصغر یاسر ایک کہنہ مشق اور حساس شاعر ہیں جن کے ہاں جذبے کی شدت، اظہار کی سادگی اور خیال کی گہرائی یکجا نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار میں نہ صرف داخلی کرب بلکہ تعلقات کی پیچیدگی بھی نمایاں ہوتی ہے۔ اب ہم اُن کے دو اشعار پر تبصرہ کرتے ہیں:

پہلا شعر:
مری انا نے مرے پاؤں باندھ رکھے ہیں
وہ التماس کی حد تک بلا رہا ہے مجھے

یہ شعر انسان کے باطن میں جاری کشمکش کی عمدہ تصویر کشی کرتا ہے۔ “انا” (خودداری) کو شاعر نے ایسی زنجیر سے تشبیہ دی ہے جو اس کے قدم روک رہی ہے، حالانکہ سامنے والا شدتِ طلب کے عالم میں بلاتا ہے۔ ایک طرف تعلق کی تڑپ ہے، دوسری طرف خودی کا قید خانہ — اور یہی داخلی ٹوٹ پھوٹ اس شعر کو غیر معمولی بناتی ہے۔

دوسرا شعر:
کوئی دیوانہ تیری جستجو میں
گلابوں کی دکان تک آ گیا ہے
یہ شعر عشق کی سادگی اور دیوانگی کو بیان کرتا ہے۔ محبوب کی تلاش میں ایک دیوانہ “گلابوں کی دکان” تک جا پہنچا ہے — جو کہ ایک علامت ہے حسن، نرمی اور محبت کی۔ اس میں دیوانگی بھی ہے، اور ایک طرح کی معصومیت بھی۔ شاعر نے عشق کے خالص اور پاکیزہ جذبے کو ایک لطیف استعارے کے ذریعے بیان کیا ہے۔

کل ملا کر دونوں اشعار اصغر یاسر کی فکری وسعت اور فنی چابکدستی کے آئینہ دار ہیں۔

جناب حمید خضر صاحب کا نام بھی شاہجہاں پور کے ادبی منظرنامے کا ایک روشن ستارہ ہے۔ جن کو مختلف تنظیموں سے کئی اسناد بھی حاصل ہو چکی ہیں۔ ان کے اشعار میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
موصوف کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

یہ اشعار حمید خضر کے گہرے جذبات اور نفسیاتی بصیرت کا مظہر ہیں۔ اشعار کچھ یوں ہیں:

“اس نے بخشا نہیں آرام ذرا سا، مجھ کو
زندگی دیتی رہی صرف دلاسہ، مجھ کو”
“اجنبی تھا وہ مگر ایسی محبت سے ملا
میں یہ سمجھا کہ ملا کوئی شناسا، مجھ کو”

تبصرہ:
ان اشعار میں شاعر نے زندگی کی تلخی اور محبت کی ناپائیداری کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ پہلے شعر میں “آرام” اور “دلاسہ” کے مابین تضاد ایک گہرا تاثر پیدا کرتا ہے۔ شاعر کا یہ کہنا کہ زندگی نے صرف دلاسے دیے، اصل راحت یا سکون نہیں، انسان کے وجودی کرب کی عکاسی کرتا ہے۔۔
دوسرے شعر میں اجنبیت اور قربت کے درمیان پیدا ہونے والا مغالطہ، انسانی جذبات کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک اجنبی کی محبت اتنی شدید تھی کہ شاعر نے اسے اپنا شناسا سمجھا—یہ شعر تعلقات کی عارضی نوعیت اور انسانی خواہشات کی نازک ساخت کو اجاگر کرتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ اشعار درد، تنہائی، اور انسانی رشتوں کی ناپائیداری پر گہری بصیرت رکھتے ہیں اور حمید خضر کی فکری گہرائی اور فنی پختگی کا مظہر ہیں۔

جناب فہیم بسمل صاحب کی شاعری ایک خالص جذبے کی آئینہ دار ہے، جنہوں نے اپنے کلام میں عشق، عرفان، اور حُسنِ بیان کو خوبصورتی سے پرویا ہے۔

فہیم بسمل ایک عمدہ، حساس اور تخلیقی شاعر ہیں جن کی شاعری میں جذبات کی گہرائی، خیال کی لطافت اور اظہار کی چمک نمایاں ہے۔ ان کے اشعار میں جدید اور کلاسیکی رنگوں کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ وہ زبان و بیان پر عبور رکھتے ہیں اور ان کی شاعری قاری کو نہ صرف فکری سطح پر متاثر کرتی ہے بلکہ جذباتی سطح پر بھی جھنجھوڑتی ہے۔۔
اب آئیے اُن کے دو اشعار پر تبصرہ کرتے ہیں:

پہلا شعر:
مہتاب، جھیل، پھول، دھنک، ابر، کہکشاں
دیکھا جو میں نے اس کو تو کیا کیا نہیں لگا

یہ شعر حسن کے تصور کو بہت دلکش انداز میں پیش کرتا ہے۔ شاعر قدرت کے حسین مظاہر (مہتاب، جھیل، پھول، دھنک، ابر، کہکشاں) کا ذکر کر کے ایک ایسا منظرنامہ بناتا ہے جو مکمل حسن کا عکس ہے، مگر جب اس نے محبوب کو دیکھا تو قدرت کے سارے مظاہر مدھم پڑ گئے۔ یہ شعر محبوب کے حسن کو ہر جمالیاتی معیار سے بالاتر قرار دیتا ہے۔

دوسرا شعر:
اُن میں سے میں نہیں ہوں ، جو خائف ہیں موت سے
یہ یوں ہوا کہ جینے کا چسکا نہیں لگا

یہ شعر زندگی اور موت کے فلسفے پر گہری سوچ کا عکاس ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ موت سے اس لیے نہیں ڈرتا کیونکہ اسے زندگی کا لطف ہی کبھی نہیں آیا۔ یہ ایک طرح کی بےزاری یا مایوسی کی تصویر ہے، مگر اس میں سچائی اور بےباکی بھی ہے۔ اس شعر میں زندگی کی تلخی اور بےرنگی کو بہت مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم یوں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے کہ میں ان میں سے نہیں جو موت سے خوفزدہ رہتے ہیں موت ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور جو موت سے خوف کھاتے ہیں در اصل اُن کو جینے کا سلیقہ حاصل نہیں ہو سکا اسی لئے انہیں چسکا نہیں لگا ۔

مجموعی طور پر فہیم بسمل کی شاعری میں جمالیاتی حس، فکری گہرائی اور داخلی سچائی ایک ساتھ ملتی ہیں، جو ان کے کلام کو ممتاز بناتی ہے۔
جناب اختر شاہجہاں پوری ایک حساس دل رکھنے والے اردو شاعر ہیں جنہوں نے اپنے کلام میں انسانی احساسات، تہذیب و تمدن، اور زبان کی لطافت کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ان کا انداز بیان سادہ، مگر پر اثر ہوتا ہے۔ وہ روایت سے جڑے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور زمانے کی تبدیلیوں پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں درد بھی ہے، فکر بھی، اور ایک لطیف احتجاج بھی۔

موصوف کے دو اشعار پر تبصرہ ملاحظہ کریں
تھکن سے چور بدن دھوپ میں نہایا ہوا
گھنے درخت کے سائے ذرا پکار مجھے

یہ شعر ایک تھکے ہوئے انسان کی تصویر پیش کرتا ہے جو زندگی کی دھوپ سہہ کر اب کسی پناہ، کسی سکون کی تلاش میں ہے۔ “گھنے درخت کے سائے” کو پکارنے کی خواہش، ایک استعارہ ہے راحت اور سکون کے لیے۔ یہ انسانی وجود کی تھکن اور فطرت سے قربت کی تمنا کا اظہاریہ ہے
دوسرا شعر

ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں

یہ شعر اردو زبان و تہذیب کے زوال پر ایک امید بھرا احتجاج ہے۔ شاعر گویا زمانے کو یاد دلا رہا ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا، ابھی کچھ چراغ جل رہے ہیں۔ “ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں” کا جملہ ایک طرح کا تہذیبی اعلان بھی ہے اور ایک پر امید پیغام بھی۔

مجموعی تبصرہ:
اختر شاہجہاں پوری کے یہ اشعار نہ صرف فن کی نزاکت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اردو زبان و تہذیب کے تحفظ کی پرخلوص کوشش بھی ہے۔ وہ اپنے الفاظ کے ذریعے قاری کے دل کو چھو لیتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

جناب راشد حسین راہی صاحب کی شخصیت جہاں ایک سنجیدہ اور مخلص شاعر کی ہے، وہیں وہ ایک تجربہ کار اور ذمہ دار صحافی کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ راشٹریہ سہارا جیسے معتبر ادارے سے ان کی وابستگی ان کے صحافتی وقار کا مظہر ہے، اور ان کی شاعری ان کے دل کی گہرائیوں سے جڑی ایک سچی آواز ہے۔

اب ان کے دو اشعار پر تبصرہ ملاحظہ ہو:
کہنا تو بہت کچھ تھا مگر آج بھی چپ ہوں
غم دل کی تمنائیں مچلنے نہیں دیتا

یہ شعر شاعر کے باطن کی ایک دل گرفتہ کیفیت کو پیش کرتا ہے۔ دل میں کئی جذبات، شکایات اور احساسات پوشیدہ ہیں، مگر غم کی شدت اتنی ہے کہ وہ ان تمناؤں کو لبوں پر آنے نہیں دیتا۔ یہ چپ صرف سکوت نہیں، بلکہ ایک گہرا جذباتی اضطراب ہے جو شاعر کے اظہار پر قدغن لگا رہا ہے۔ اس میں ایک طرح کی خود اختیاری بھی ہے، اور مجبوری بھی۔

رُکتا ہی نہیں غم کی ہواؤں کا تسلسل
جو مشعل امید کو جلنے نہیں دیتا

یہ شعر زندگی کے ان لمحات کی عکاسی کرتا ہے جہاں مسلسل مایوسی، دکھ اور غم نے انسان کو گھیر رکھا ہو۔ شاعر غم کو ہوا سے تشبیہ دے کر اس کی شدت اور تسلسل کو بیان کرتا ہے، جو امید کی روشنی کو جلنے سے روکے ہوئے ہے۔ مشعلِ امید، جو عام طور پر اندھیرے میں رہنمائی کا استعارہ ہے، یہاں غم کے طوفان کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔

راشد راہی کی شاعری دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل میں اترتی ہے۔ ان اشعار میں غم، ضبط، خاموشی اور امید جیسے گہرے انسانی جذبات کو سادہ لیکن پراثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

ان تمام عظیم المرتبت شعراء نے نہ صرف شاہجہاں پور کی ادبی فضا کو معطر کیا، بلکہ اردو ادب کے افق پر اپنی پہچان بنائی۔ ان کی تحریریں ہمارے لیے ایک خزانہ ہیں جن سے ہم اپنی زبان، تہذیب اور فکری ورثے کا شعور حاصل کرتے ہیں۔

یہ شعراء اس عہد کے چراغ ہیں جن کی روشنی نسلوں تک پہنچے گی، اور جب کبھی تاریخِ ادبِ شاہجہاں پور لکھی جائے گی، تو ان کے ذکر کے بغیر وہ تاریخ ادھوری سمجھی جائے گی۔

اللہ رب العزت ان تمام شخصیات کو حفظ و امان میں رکھے اور مع صحت و عافیت لمبی عمریں عطا فرمائے آمین۔

طالب دعا ۔
مختار تلہری ثقلینی بریلی
موبائل ,; 7668233626