اردو خبر خاص

کارل مارکس کا مجسمہ جرمن شہر کیمنٹس میں کیا کر رہا ہے حالانکہ وہ اس شہر میں کبھی نہیں گئے

کارل مارکس کا مجسمہ جرمن شہر کیمنٹس میں کیا کر رہا ہے حالانکہ وہ اس شہر میں کبھی نہیں گئے اور سلووینیا کے شہر نووا گوریتسا کو منقسم شہر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ سن 2025 میں یورپ کے ان دو ثقافتی دارالحکومتوں کا ایک تعارف!

سن 1971 کے بعد سے جرمن شہر کیمنٹس کے مرکز میں کارل مارکس کا ایک مجسمہ نصب ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے پورٹریٹ مجسموں میں سے ایک ہے۔ اس وقت مجسمہ ساز اور سوویت آرٹسٹ لیو کربل نے مبینہ طور پر کہا تھا، ”کارل مارکس کو نہ ٹانگوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہاتھ کی، ان کا سر سب کچھ کہتا ہے۔‘‘

اس جرمن فلسفی اور سماجی تھیوریسٹ کا سر کیمنٹس کی ایک مشہور علامت ہے۔ اسی مجسمے کی وجہ سے مشرقی جرمنی کے اس شہر کو عرف عام میں ”کھوپڑیوں کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن کارل مارکس کا کیمنٹس سے کیا لینا دینا ہے؟ نجی حوالے سے کچھ زیادہ نہیں کیوں کہ وہ جرمن شہر ٹریئر میں پیدا ہوئے اور لندن میں وفات پائی۔ انہوں نے تو کبھی کیمنٹس کا دورہ بھی نہیں کیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ شہر مشرقی جرمنی (جی ڈی آر) کا حصہ بن گیا تھا۔ اس وقت ملک کی کمیونسٹ حکومت نے اس شہر کا نام بدلنے کے لیے کسی سوانحی تعلق کو اہم نہیں سمجھا اور اس کا نام ”کارل مارکس سٹی‘‘ رکھ دیا۔

جی ڈی آر کے اس وقت کے وزیر اعظم اوٹو گروٹے وُوہل نے اس فیصلے کو اس شہر میں مزدور تحریک کی جڑوں اور حکومت کی نظر میں اس کی حیثیت کو سوشلزم کے ایک مثالی نمونے کے طور پر درست قرار دیا۔

تاہم جمہوریہ چیک کی سرحد پر واقع جرمن ریاست سیکسنی میں واقع اس سرکردہ صنعتی شہر کی ایک طویل تاریخ ہے، جو جی ڈی آر کے قیام سے پہلے کی ہے۔ 18ویں اور 19ویں صدی میں وہاں ٹیکسٹائل، بلڈنگ، ریلوے اور کار سازی کی صنعتیں قائم ہو چکی تھیں۔ اس کے قریبی پہاڑوں میں کان کنی نے بھی اس خطے کو ایک اقتصادی پاور ہاؤس بنا دیا تھا۔

صنعتوں کی وجہ سے کیمنٹس کو ”سیکسن مانچسٹر‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ مشرقی یورپ میں کمیونزم کے زوال کے بعد کارل مارکس سٹی نے شاختی تبدیلی کا تجربہ کیا اور نام کی تبدیلی بھی ہوئی۔ شہر کے 76 فیصد باشندوں نے پرانا نام کیمنٹس واپس لانے کے حق میں ووٹ دیا۔

اب سن 2025 میں کیمنٹس اور اس کے آس پاس کی کمیونٹیز کو فروری میں مشترکہ طور پر یورپین کیپٹل آف کلچر کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔

سلووینیا کا شہر نووا گوریتسا

اس سال پہلی بار دو مختلف مقامات کو ایک ساتھ ثقافت کے ایک سرمائے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سلووینیا میں نووا گوریتسا اور اٹلی میں گوریزیا نامی شہر کبھی ایک تھے اور یہ شہر آج یورپ کے آخری منقسم شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ قدیم شہر تقریباً 1000 عیسوی کے لگ بھگ قائم ہوا تھا۔ یہ شہر کاؤنٹ آف گوئرز کا گھر بھی تھا۔ یہ ایک شاہی خاندان تھا، جو جنوبی الپس میں سب سے اہم حکمران خاندانوں میں سے ایک تھا۔

یہ ایک بارونق کاسموپولیٹن شہر تھا، جس کی گلیوں میں جرمن، اطالوی اور سلووینیائی زبانیں سنی جا سکتی تھیں۔ پہلی عالمی جنگ اور ہیبسبرگ بادشاہت کے زوال کے بعد یہ شہر اطالوی بن گیا اور اس کا نام گوریزیا رکھ دیا گیا۔ سلووینیا کے باشندوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ شہر کے ثقافتی تنوع کو ختم کرتے ہوئے اس میں ضم ہو جائیں۔

تاہم دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد حالات ایک بار پھر بدل گئے۔ شہر کا زیادہ تر حصہ اطالوی رہا لیکن یوگوسلاویہ جس کا سلووینیا ایک حصہ تھا، کے وزیراعظم جوزیپ بروز ٹیٹو اس جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس شہر کے مضافاتی میدانوں میں نووا گوریتسا، یا ”نیو گوریزیا‘‘ شہر کی بنیاد رکھی۔ پاکستانی شہر اسلام آباد کی طرح یہ منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا ایک شہر تھا، جسے فعال اور جدید بنایا گیا۔

اس طرح سلووینیائی نووا گوریتسا اور اطالوی گوریزیا کے درمیان سرحد کی بنیاد رکھی گئی۔ پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی طرح یہاں کے خاندانوں کو الگ کر دیا گیا۔ یہاں زمین کی دوبارہ تقسیم ہوئی اور دونوں طرف بداعتمادی بھی بڑھ گئی۔ اس وقت مشرق اور مغرب کے درمیان سرد جنگ ایک چھوٹے سے شہر میں چل رہی تھی، جس میں ہر فریق دوسرے پر فاشسٹ یا کمیونسٹ ہونے کا الزام لگا رہا تھا۔

سلووینیا کی یوگوسلاویہ سے آزادی کے بعد یہ سرحد 16 سال تک برقرار رہی۔ سلووینیا کی سن 2007 میں یورپی یونین میں شمولیت اور سن 2007 میں آزادانہ نقل و حرکت کے شینگن زون میں داخلے کے بعد ہی دونوں میونسپلٹیز ایک مشترکہ تاریخ بنانے کے لیے مل کر کام کر سکیں۔ ایک ایسی تاریخ، جو 2025 میں ایک نئی بلندی پر پہنچ رہی ہے۔