اردو خبر قومی

پروفیسر امرناتھ پرساد کی کویتا مہاراشٹر یونیورسٹی کے نصاب میں شامل

Taasir Patna
===============
پروفیسر امرناتھ پرساد کی کویتا مہاراشٹر یونیورسٹی کے نصاب میں شامل
آر کے مشن میں مجموعہ کلام کا ہوا رسم اجراء
یہ نہایت ہی فخر کا لمحہ ہے کہ سارن کے ایک ادیب کی لکھی ہوئی کویتا کو مہاراشٹر کی ایک معروف یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔مذکورہ باتیں سابق پرنسپل کے کے دیویدی نے آر کے مشن آشرم میں منعقد پروفیسر (ڈاکٹر) امر ناتھ پرساد کے استقبالیہ اور مجموعہ کلام کے رسم اجرا تقریب کو خطاب کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے بتایا کہ جگدم کالج کے شعبہ انگریزی کے سربراہ ڈاکٹر پرساد کا مجموعہ نظم The Priest of Nature کا پہلے نظم کو مہاراشٹر کے سنت بابا گاڈگے یونیورسٹی کے بی اے پارٹ ٹو کے تھرڈ سمسٹر کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے.مذکورہ نظم کسانوں کی زندگی سے متعلق ہے۔اس نظم کو بی اے کی لازمی انگریزی کی نصابی کتاب ASPIRATIONS کے 47ویں صفحہ پر جگہ ملی ہے۔اس کتاب کو حیدرآباد کے معروف پبلشر اورینٹ بلیک سوان نے شائع کیا ہے۔پرایانک سنستھا کے زیراہتمام منعقدہ تقریب میں ڈاکٹر پرساد کو ضلع کے سینئر ادیبوں،پروفیسروں اور دیگر معززین نے اعزاز سے نوازا۔پروگرام کا آغاز مہمانوں کے استقبال اور چراغاں سے ہوا۔جس کے بعد ان کی کتاب کی رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔تقریب میں پروفیسر ایم کے شرن،سوامی اتیدیوانند جی مہاراج،برجیندر سنہا،پروفیسر ایچ کے ورما،پروفیسر اوشا ورما،پروفیسر ادے شنکر اوجھا،پروفیسر گجیندر کمار،ڈاکٹر راجو پرساد،ڈاکٹر منیش سنگھ،ڈاکٹر شیو پرکاش یادو،کوی وریندر مشرا ‘ابھے’،مسز ششی پربھا،ڈاکٹر انجلی سنگھ،سینئر صحافی دھرمیندر رستوگی،ڈاکٹر جے پی سنگھ،ڈاکٹر پرمود کمار،ڈاکٹر مرنال آنند،ڈاکٹر راجیش گپتا،سمن سنگھ،ابھے کمار،لال بابو سونی،ایشور پرساد،ڈاکٹر راکیش کمار اور دیگر شرکا نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ نظم میں شاعر نے کسانوں کے دکھ درد اور ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو فن کے دھاگے میں باندھ کر بیان کیا ہے جو کہ اچانک پڑھنے والوں کے دل کی تاروں سے ٹکراتی ہے اور سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کسان واقعی قدرت کا سب سے بڑا پجاری ہے۔اس نظم میں شاعر نے کسانوں کے کھیتوں کا سمندر سے موازنہ کیا ہے اور ان کی فصلوں اور اناج کو سمندر کی تہہ میں چھپے ہیروں اور موتیوں سے تعبیر کیا ہے جو دنیا کو پالتے ہیں۔کچھ دانے نادانستہ طور پر کھیتوں میں گر جاتے ہیں جس سے پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور دیگر مخلوقات کی زندگی برقرار رہتی ہے۔کسانوں کی خوشی ان کی پیدا کردہ فصلوں میں پنہاں ہے جسے دیکھ کر کسان ہمیشہ خوش ہوتا ہے۔لیکن اس کی مالی حالت بہت خراب ہے اور وہ اکثر قرض کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ وہ اپنے خون پسینے سے اناج کو سیراب کرتا ہے لیکن سیلاب اور خشک سالی کے بعد اس کی حالت دگرگوں ہو جاتی ہے۔ شاعر ڈاکٹر امرناتھ پرساد نے انکی دگرگوں حالت کا موازنہ ایک پھنسے ہوئے چوہے سے کیا ہے جو مسائل اور پریشانیوں کے جال میں پھنس جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں شاعر نے کسانوں کی زندگی کے مختلف جہتوں کو کافی فنی اور ادبی انداز میں بیان کیا ہے۔نظم میں سادگی اور بے ساختگی بھی ہے جو کسان کی اہم خصوصیات ہیں۔پروگرام کی نظامت پروفیسر بالمیکی نے کی۔