اردو خبر دنیا

پاکستان کے انتخابات میں مرکزی اپوزیشن تحریک انصاف پارٹی کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن

پاکستان کے آئندہ انتخابات میں مرکزی اپوزیشن پارٹی کے خلاف جہاں سخت ترین کریک ڈاؤن دیکھنے میں آرہا ہے وہاں کچھ امیدواروں کا کہنا ہے کہ حکام نے انہیں تضحیک آمیز انتخابی نشانات دے کر ان کی مہم کو ضرب لگانے کی کوشش کی ہے۔

8 فروری کو پاکستان میں عام انتخاباتسے پہلے جہاں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کو ہر طرح کے ممکنہ کریک ڈاؤن کا سامنا ہے وہیں اس جماعت کو پہلے تو اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے سنایا بعدازاں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو بینگن، چارپائی، ڈھول، درانتی، دروازہ، گھڑیال اور اسی طرح کے کئی نہایت معیوب نظر آنے والے نشانات کے ساتھ الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔

مضحکہ خیز انتخابی نشانات کا مقصد؟
آئندہ الیکشن کے انعقاد میں چند روز رہ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی اور رہنما عمران خان کو جمعرات 8 فروری کی پولنگ میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے اور ان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی سے الیکشن کمیشن کے قوانین پر پورا نہ اترنے پر ان کے طویل عرصے سے بلے کا انتخابی نشان چھین لیا گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے درجنوں پیروکاروں کو بھی الیکشن میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہے اور جو اب آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں ، انہیں بھی ہراساں کیے جانے کی اطلاعات ہیں یا انہیں چھپنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

ایسے چند آزاد امیدواروں کو مضحکہ خیز انتخابی نشان بھی الاٹ کیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد ان امیدواروں کی انتخابی مہم کو غیر سنجیدہ بنانا اور اس کے منفی اثرات مرتب کرنا ہے۔

چھیالیس سالہ عامر مُغل اور ان کی ٹیم بطور انتخابی نشان بینگن ملنے پر نہایت عجیب و غریب محسوس کر رہی ہے۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں، ”اُردو زبان میں بینگن کہلانے والی یہ سبزی پاکستانی کھانوں کا ایک اہم جُزو ہے۔‘‘ بینگن دراصل مردانہ اناٹومی کے لیے تجویز کردہ ایک ایموجی کے طور پر بھی استعمال میں آنے والا نشان ہے۔ عامر مُغل نے اس بارے میں خوشی مزاجی سے کہا، ”اس پر ہم نے عجیب محسوس کیا۔‘‘ عامر مُغل اپنے انتخابی جلسوں میں بینگن کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ رائے دہندگان میں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور یہ کہ ان کا انتخابی نشان بننے کے بعد اس وقت بینگن کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ مغل کے بقول،”یہ علامت مجھے ایک غیر معمولی شہرت دے رہی ہے۔ ہر کوئی اسے دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نشان عمران خان کے امیدوار کا ہے۔‘‘

انتخابی نشان بوتل
اُدھر شمال مغربی صوبے میں شہریار آفریدی کو اُس وقت غصہ آگیا جب انہیں بوتل کا انتخابی نشان جاری کیا گیا۔ واضح رہے کہ مقامی پشتو زبان میں، کسی کو بوتل کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ”خالی برتن یا بیکار شے عقل و فہم سے آری ہے۔ قدامت پسند اسلام کے غلبے والے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے اس 45 سالہ امیدوار نے کہا، ”مجھ سمیت پی ٹی آئی کے زیادہ تر امیدواروں کو ایسے نشانات دیے گئے جن کا مقصد منفی تعصب پیدا کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ،”ہمیں جان بوجھ کر ایسی نشانات دیے گئے ہیں جو ہمارا مذاق اڑانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔‘‘

آفریدی اپنا کیس صوبائی دارالحکومت پشاور کے ہائی کورٹ لے گئے، لیکن ان کی کوئی سنوائی نہ ہوئی۔ انہوں نے کہا، ”جب ہم انتخابی مہم کے دوران میدان میں اترے تو ہمیں بوتل کے نشان کے حوالے سے اتنا ردعمل ملا کہ اس نے خود بخود ہماری مہم کو سبوتاژ کر دیا۔‘‘ انہوں نے اپنے انتخابی علامت کو ٹویٹ یا ایکس پر پوسٹ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک بوتل صرف الکوحل کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ یہ دوا کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کے بقول،”یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے انتخابی نشان کو دوا کی بوتل میں تبدیل کر دیا ہے تاکہ ہم تمام معاشرتی بیماریوں کا علاج کر سکیں۔‘‘