ہمارے شناختی کارڈ پر ہماری صنف کے لحاظ سے عورت یا مرد لکھا جاتا ہے، اس کے بعد ہی مختلف سماجی سہولیات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ تمام مراعات جو کسی پاکستانی شہری کو ملنا چاہییں، ان کی بنیاد شناختی کارڈ ہی بنتا ہے۔
لیکن جب ہم مرد یا عورت کے خانے میں فٹ نہیں ہوتے،تو ہمیں ایک تیسری صنف کے طور پر پہچان ملتی ہے۔ وہ تیسری جنس پاکستان میں عام طور پر ‘خواجہ سرا، مخنث،کھسرا، ہیجڑا‘ یا پھر ٹرانس جینڈر کے طور پر جانی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو ایک ‘امبریلا ٹرم‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جس کے تحت پیدائشی طور پر تیسری صنف میں پیدا ہونے والے افراد اور مرد یا عورت کی شناخت کو اپنانے والے مخالف جنس کے سبھی افراد کو شمار کیا جاتا ہے۔
اب تک پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد بھی مرد یا عورت کے خانے میں ہی اپنی پہچان لکھواتے رہے ہیں۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ وہ جائیداد کے معاملات کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی اور معاشرتی حقوق میں برابر کے شریک ٹھہرائے جاتے ہیں اور اس کی بنیاد لامحالہ قومی شناختی کارڈ ہی ہوتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایسے کسی بھی شناختی کارڈ کی موجودگی بھی ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں چونکہ ٹرانس جینڈر شہریوں کو لے کر بہت زیادہ کنفیوژن پائی جاتی ہے، اس لیے ان کے حقوق، جائیداد میں وراثت، ان کے مذہبی معاملات ، شادی اور دیگر قانونی معاملات میں ان کی حفاظت کے لیے کسی طرح کے قوانین واضح طور پر موجود نہیں ہیں اور اگر کہیں کچھ مذہبی احکامات موجود بھی ہیں، تو انہیں روایت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایکس شناختی کارڈ کا اجرا ہونے لگا ہے مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ بہت کم ٹرانس جینڈر باشندوں نے اپنی اصل شناخت کے ساتھ اپنے کارڈ بنوانے کی ہمت کی ہے۔