اردو خبر دنیا

پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں بے انتہا اضافہ ہوا, اس سال اگست تک دہشت گردانہ حملوں میں 757 افراد ہلاک

ایک تھنک ٹینک کے مطابق اس سال اگست تک دہشت گردانہ حملوں میں ملک میں 757 افراد ہلاک اور تقریباً اتنے ہی زخمی ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کے لیے حکومت کو بہتر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق اس سال اگست تک دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ملک میں 757 افراد ہلاک اور تقریباً اتنے ہی زخمی ہوئے۔

اس وقت عسکریت پسند بالخصوص ملک کے دو صوبوں میں سرگرم ہیں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان۔ ان دونوں کی ہی سرحدیں افغانستان سے لگتی ہیں اور اسلام آباد نے بارہا افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر پاکستان میں حملوں کا الزام لگایا ہے۔ تاہم کابل میں بر سر اقتدار افغان طالبان اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی بھی سرگرم نظر آتا ہے۔

‘ریاست کی غفلت’
اس حوالے سے خراساں ڈائریز کے شریک بانی اور صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کی بڑی وجہ “ریاست کی غفلت” کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عسکری آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کو ملک سے باہر نکالنے سے حاصل ہونے والے فوائد کو دیر پا بنانے کے لیے کوششیں نہیں کی گئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے “اشرف غنی کے دور حکومت میں افغانستان کے ساتھ کوئی طریقہ کار نہیں مرتب کیا گیا اور اس طرح تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو دوبارہ اپنے آپ کو مضبوط کرنے کا موقع مل گیا۔”

حملوں میں اضافے کی وجوہات
پاکستان کی سابقہ سفارت کار اور خارجہ امور کی تجزیہ کار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ افغان طالبان پر تشدد کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، “پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ (افغان) طالبان حکام کا ٹی ٹی پی پر لگام لگانے سے انکار ہے، جب کہ یہ تنظیم وہاں سے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں تشدد میں حالیہ اضافہ “پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک بیرونی کوشش” معلوم ہوتی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوشن سے وابستہ مدیحہ افضال کے بقول افغانستان میں طالبان حکام ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کے لیے “لوجسٹکل اسپیس” فراہم کر رہے ہیں۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کے لیے پاکستانی قیادت بھی ذمہ دار ہے، جس کی توجہ اندرونی “جھگڑوں اور سیاسی اپوزیشن پر کریک ڈاؤن” کرنے پر مرکوز ہے۔

‘عوامی حمایت اہم’
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کو بہتر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شریک کیا جائے اور عوامی حمایت حاصل کرنے پر بھی توجہ دی جائے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا تھا، “یہ تشویشناک ہے کہ (دہشت گردی کے خلاف) عسکری آپریشنز کو مقامی لوگوں کی حمایت حاصل نہیں۔ بلکہ ان کا تو مطالبہ ہے کہ ان کے علاقوں سے عسکریت پسندوں اور فوج دونوں کو نکالا جائے۔ وہاں سماجی اور اقتصادی حوالے سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں، لوگوں میں عدم اعتماد پایا جاتا ہے اور باغی عناصر ان فالٹ لائنز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا، “ان دونوں صوبوں میں عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے عوام کی حمایت ہونا اہم ہے۔”