اردو خبر دنیا

پاکستان میں آن لائن شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اب روایتی طریقوں کو چیلنج کر رہا ہے

پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں آن لائن شادیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اب روایتی طریقوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ آن لائن شادی ایپس خود کو ’’حلال‘‘ یا اسلامی طریقہ کار کے مطابق جائز قرار دیتی ہیں۔

پاکستان میں شادیاں کرانے والے افراد یا روایتی میچ میکرز ایک قابل احترام کردار ادا کرتے ہیں لیکن اب آن لائن دستیاب شادی ایپس خواتین کو شوہر تلاش کرنے کے لیے ایک نیا راستہ فراہم کر رہی ہیں۔

لاہور میں ایک ٹیکسٹائل ڈیزائنر عزہ نواز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ”جب میں نے اپنی دوست کو کسی ایسے شخص سے شادی کے بعد خوش دیکھا جس سے وہ آن لائن ملی تھی، میں نے بھی سوچا کہ ہم چار یا پانچ سال سے رشتہ آنٹیوں کو آزما رہے ہیں، آئیے اسے(آن لائن) بھی آزما لیں۔‘‘

رشتہ آنٹیز یا روایتی میچ میکرز خواتین کو بنا سنوار کر شادی کے امیدوار فرد کے خاندانوں کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ یہ عمل ایک ایسے ملک میں روایت ہے، جہاں ڈیٹنگ کو بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔

’محبت کا ملاپ‘
لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستان میں مسلمان جوڑوں کے لیے شادی کی ایپس سامنے آئی ہیں، جو”محبت کے ملاپ‘‘ کا وعدہ کرتی ہیں۔ چند ایک ایپس ایک سرپرست کا اختیار بھی پیش کرتی ہیں، جو کسی منتخب رشتہ دار کو بھیجے اور موصول ہونے والے پیغامات کی ہفتہ وار اطلاع فراہم کرتا ہے۔

عزہ کے لیے شادی کے سلسلے میں آن لائن انتخاب ایک کامیابی رہی۔ مز نامی ایپ پر وسیم اختر سے ملنے کے صرف تین ماہ بعد ان کی شادی ہوگئی۔ عزہ نے کہا، ”ہم اپنے خاندان کواس معاملے میں شامل کرنے سے پہلے چند ڈیٹس پر گئے تھے۔ ہم نے اپنا وقت لیا۔‘‘

گیلپ اور گیلانی پاکستان کے ایک سروے کے مطابق 80 فیصد سے زائد پاکستانیوں نے ایسی شادیاں کر رکھی ہیں، جہاں ان کے خاندانوں نے ان کے ملن کا فیصلہ کیا۔ اس سروے کے مطابق بعض اوقات دولہا اور دلہن کی ملاقات کے بغیر بھی منگنیاں طے پا جاتی ہیں۔

لڑکیوں کے والدین ایک موزوں خاندان کی تلاش میں مدد کے لیے پیشہ ور رشتہ آنٹیوں کی مدد لیتے ہیں، اس سارے عمل کا کا پہلا تاثر اکثر اس بات پر ہوتا ہے کہ شادی کی امیدوار لڑکی اپنے ممکنہ سسرال والوں کے لیے چائے ڈالتے وقت کیسی دکھتی ہے۔

‘حلال‘ ایپس
تاہم، شادی ایپس کے مطابق پچھلے سال بڑے شہروں میں اشتہاری مہم کے زریعے اب تک 1.2 ملین پاکستانی شادی ایپس کے لیے سائن اپ کر چکے ہیں، اور 15,000 لوگ شادیاں بھی کر چکے ہیں۔ شادی کی ایپس خود کو ”حلال‘‘ یا اسلامی طریقہ کار کے مطابق جائز قرار دیتی ہیں، رازداری کے لیے پروفائل تصویروں کو دھندلا کرنےکا اختیار دیتی ہیں اور یہ واضح کرتی ہیں کہ ان کا مقصد کسی شادی کی پیشکش تک پہنچنا ہے۔

لیکن ان ایپس کو اس بدنامی سے بھی لڑنا پڑتا ہے، جو انہیں ٹینڈر جیسی ڈیٹنگ ایپس سے جوڑتی ہے، جس پر پاکستان میں ‘غیر اخلاقی‘ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

عزہ کے شوہر وسیم کا کہنا ہے کہ میں لوگوں کو یہ نہیں بتاتا کہ میں اپنی بیوی سے کیسے ملا جب تک مجھے یقین نہ ہو کہ وہ شخص ہمیں اس معیار پر نہیں پرکھے گا۔

رشتہ آنٹیاں قابل بھروسہ
شادی کو پاکستان میں دو خاندانوں کے ملاپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں بہت سے لوگ کثیر نسل گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے میں اپنے شوہر یا بیوی کا خود انتخاب کرنا بزرگوں کے تئیں گہری تعظیم کے لیے ایک چیلنج اور روایتی خاندانی ڈھانچے کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

لہٰذا رشتا آنٹیوں پر قابل قبول خاندانوں سے رشتے تلاش کرنے کے حوالے بھروسہ کیا جاتا ہے۔

ردا فاطمہ کا کہنا ہے، ”مجھے ایک لڑکے کے گھر والوں کو یہ نہ بتانے کو کہا گیا کہ میرا شوق پیدل سفر کرنا یا فوٹو گرافی کرنا ہے، بلکہ کھانا پکانا اور صفائی کرنا ہے، اس سے مجھے غصہ آیا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ”ان میں یہ بات کرنے کی جرات تھی کہ میں کیسی دکھتی ہوں، میں نے کیا کیا، میں نے کتنا کمایا، میرا خاندان کون ہے، میرے کتنے بھائی ہیں، میری مستقبل کی خواہشات کیا ہیں، اس لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا جائزہ لیا جاتا ہے۔‘‘

فاطمہ کو اس کے والدین کی طرف سے مقرر کردہ رشتہ آنٹی کے ذریعے کئی ممکنہ میچز پیش کیے گئے، لیکن ان سے ایک لڑکے سے تعارفی ملاقات کے لیے تقریباً 700 ڈالر ادا کرنے کے لیے کہا گیا۔ بالآخر، فاطمہ نے اس عمل کو ترک کر دیا، اور وہ ان 18 فیصد پاکستانیوں کا حصہ بن گئیں، جنہوں نے اتفاقاً اپنے شوہر سے ملاقات کے بعد ”محبت کی شادی‘‘ کی۔

روایتی میچ میکرز کے روزگار کو خطرہ؟
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک میرج کنسلٹنسی کی منیجنگ ڈائریکٹر مسکان علی نے کہا، ” لڑکا چاہے خود کیسا ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ گنجا ہو یا اس کی توند نکلی ہو، لیکن ایک ایسی بیوی چاہتا ہے جو کسی ماڈل جیسی ہو۔‘‘

رشتہ آنٹیوں کو ابھی تک اپنا کام ختم ہونے کا خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ ان کے دفاتر والدین اور ان کے بچوں کے کمپیوٹرز پر پروفائلز تیار کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ میچ میکرز اپنے کاروبار کو ویب سائٹس اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے ڈیجیٹائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کنسلٹنٹس نوجوان خواتین کو اپنے مستقبل کے سسرال والوں کی خواہشات کے مطابق چلنے، بات کرنے اور لباس پہننے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔ راولپنڈی میں رشتہ آنٹیوں کی کمیونٹی کی سربراہ فوزیہ اعظم جیسے بہت سے روایتی میچ میکرز شادی کی ایپس کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

‘آن لائن اپیس وقت کا ضیاع‘
انہوں نے کہا کہ لوگ ان ایپس پر وقت ضائع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”رات بھر گپ شپ کرنا، مجھے یہ پسند نہیں ہے۔‘‘ ایک مصنفہ عائشہ سروری کے لیے میچ میکنگ کا عمل بہوؤں پر ”کنٹرول‘‘ حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا، ”میں کہوں گی کہ ہمیں ایک اچھا درمیانی راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جہاں دونوں طرف برابر احترام ہو اور کسی انسان کو صرف اس وجہ سے نیچا دکھانے کا کوئی احساس نہ ہو کہ وہ کسی خاص طریقے سے نظر آتا ہے یا وہ کسی خاص نسل سے ہے۔‘‘

انیلہ (فرضی نام) ایک ڈیجیٹل میڈیا آرٹسٹ ہیں، جنہوں نے نے اپنی پوری کوشش کی کہ وہ ایک میچ میکر کے زیر اثر ہونے سے بچ سکیں اور شادی کی ایک ایپ کا رخ کیا، لیکن انہیں وہاں نئے خدشات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اسلام آباد کے ایک کیفے میں اپنے پروفائل کو سوائپ کرتے ہوئے کہا، ”ایک ایپ پر رہنا مشکل ہے، مرد جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘

تاہم بعد میں انہوں نے نے اپنے پروفائل پر جعلی نام اور تصاویر استعمال کرنے کا اعتراف کیا تاکہ مرد انہیں پہچان نہ سکیں۔ ان کا کہنا تھا، ”اب ایک ہی آپشن رہ گیا ہے کہ طہ شدہ شادی کی جائے۔‘‘