اردو خبر خاص

’نقشہ بدلنے‘ کی ض …. ودود ساجد

(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

نو مہینوں کی انتہائی غیر متوازن اور تباہ کن جنگ کے بعد اسرائیل پھر جنگ بندی کیلئے مذاکرات پر آمادہ ہوگیا ہے۔ حماس نے بھی سنا ہے کہ فی الحال مستقل جنگ بندی کی ضد چھوڑ دی ہے اور اس کی جگہ اب یہ کہا ہے کہ اسے ثالثوں سے مستقل امن کی یقین دہانی درکار ہے۔ لیکن اس نئی صورتحال سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد اور دعووں میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔۔۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے غیر معمولی فضائی‘ بری اور بحری حملوں کے بعد 8 اکتوبر کو اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے حماس کے خلاف جنگ شروع کرتے ہوئے یہی تو کہا تھا کہ جنگ کا اصل مقصد حماس کا مکمل صفایا ہے اور یہ کہ ہم محض تین چار ہفتوں میں ہی مشرق وسطی کا نقشہ بدل دیں گے۔ لیکن اب اسرائیل اسی حماس سے سمجھوتہ کیلئے ثالثوں سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ وہ حماس کو ختم کرسکا ہے اور نہ اپنی خواہش کے مطابق مشرق وسطی کا نقشہ ہی بدل سکا ہے۔۔

اسرائیلی فورسز کے خلاف گھات لگاکر حماس کے مسلسل حملوں اور اب حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی سرگرمیوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ اسرائیل‘ فی الواقع حماس کے بہانے پورے مشرق وسطی اور خاص طور پر ایران‘ شام اور لبنان کو بھی جنگ کی آگ میں جھونکنے کا منصوبہ بنارہا تھا۔ اس ضمن میں اس نے شام میں واقع ایران کے قونصل خانہ پر ڈرون حملہ کرکے اس کے کئی اعلی سفارت کاروں اور فوجی عہدیداروں کو ہلاک کردیا تھا۔ لبنان میں بھی اس نے حملہ کرکے حزب اللہ اور حماس کے کئی سینئر لیڈروں کو شہید کردیا تھا۔ لیکن ایران کے انتہائی غیرمعمولی جوابی حملوں سے وہ سہم بھی گیا تھا۔۔۔

اس بار اسرائیل کے منصوبہ میں اس کے دو پڑوسی اتحادی ممالک اردن اور مصر نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ ہر چند کہ اس کا بہت بڑا نقصان اہل غزہ کو اٹھانا پڑا لیکن مصر نے اپنی سرحد نہ کھول کر اسرائیل کے اس منصوبہ کو ناکام کردیا جس کے تحت وہ غزہ کے مکینوں کو مصر میں دھکیل کر خود غزہ پر فوجی اور انتظامی کنٹرول حاصل کرنا چاہتا تھا۔

واضح رہے کہ مصر اور اردن دونوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر رکھا ہے۔ غزہ کو مصر کے راستے باقی دنیا سے جوڑنے والاصرف ایک راستہ ’رفح‘ سے ہوکر جاتا ہے۔ رفح فی الواقع فلسطین اور مصر کی سرحدی چوکی ہے۔ رفح ایک بڑی آبادی بھی ہے۔ اسرائیل کی ضد ہے کہ وہ غزہ کی طرح رفح پر بھی بھرپور حملے کرے گا۔ اس کا دعوی ہے کہ حماس کے’دہشت گردوں‘ کا اصل ٹھکانہ رفح ہی ہے اور وہ یہاں کی آبادی میں گھل مل کر اسرائیل کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ دنیا بھر نے‘ یہاں تک کہ خود اسرائیل کے حلیف ممالک نے بھی اسے رفح پر حملوں سے باز رہنے کو کہا ہے لیکن اسرائیل کسی کی نہیں سن رہا ہے۔

ماہرین جنگ کا خیال ہے کہ رفح پر حملوں سے غزہ سے بھی زیادہ تباہی آئے گی۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ غزہ سے نقل مکانی کرنے والے کئی لاکھ فلسطینی رفح اور اس کے قرب وجوار میں ہی ٹھہرے ہوئے ہیں۔ چونکہ مصر ایک حکمت عملی کے تحت ان خانماں برباد فلسطینیوں پر اپنی سرحد نہیں کھول رہا ہے اس لئے ان کے پاس اپنی جان بچاکر کہیں اور نکل جانےکا کوئی متبادل نہیں ہے۔

مشرق وسطی میں ایک نئی صورتحال بھی پیدا ہوئی ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ عبداللہیان کی ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں موت کے بعد وہاں نئے صدارتی انتخابات ہوئے ہیں۔ یہ دونوں عالمی سطح پر اسرائیل مخالف مہم کا نمایاں چہرہ بن گئے تھے۔ اسرائیلی میڈیا کو توقع تھی کہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کے انتخاب کے بعد ممکن ہے کہ ایران میں اب اس پرغور شروع ہوجائے کہ کیا حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیموں نے کشیدگی کو عروج پر پہنچایا۔ لیکن ایران کے نومنتخب صدر کا بیان آگیا ہے کہ ایران ‘ فلسطین کے تئیں اپنی پرانی پالیسی پر قائم رہے گا۔

ماضی کے تجربے کی روشنی میں امریکہ نہیں چاہتا کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع ہو۔ اس سلسلہ میں اس کے اعلی عہدیدار لبنان کا دورہ بھی کرچکے ہیں لیکن تین ہفتوں میں حسن نصراللہ کی دومفصل تقریروں نے صورتحال کی سنگینی کا کچھ اشارہ دیدیا ہے۔۔۔ حزب اللہ نے تین ہفتوں میں دوسری بار اسرائیل کے متعدد شہروں کے اندر کے درجنوں حساس مقامات کی ڈرون فوٹیج جاری کی ہیں اور دعوی کیا ہے کہ اس کے پاس گھنٹوں کے حساب سے ایسی مزید فوٹیج موجود ہیں۔

اس سے دو اہم نکتے سامنے آتے ہیں: ایک تو یہ کہ حزب اللہ کے پاس نشانہ بنانے کیلئے اسرائیل کے اندر کے حساس عسکری مقامات کے نقشے اور اہداف موجود ہیں اور دوسرے یہ کہ حزب اللہ کے جن ڈرونز نے اسرائیل کی فضا میں جاکر گھنٹوں وہاں کی تصویریں اور فوٹیج لی ہیں انہیں اسرائیل کا دفاعی نظام پکڑنے میں ناکام رہا۔ حسن نصراللہ نے پچھلی تقریر میں کہا تھا کہ حزب اللہ کے پاس اسرائیل سے لڑنے اور جنگ کو جیتنے کے لئے مطلوب تعداد سے بھی زیادہ ایک لاکھ جاں باز اور خطرناک قسم کے دور مار آتشی ہتھیار موجود ہیں۔

اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق حزب اللہ نے 8 اکتوبر 2023 کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک اسرائیل کے خلاف کوئی چھ ہزار حملے کئے ہیں۔ حزب اللہ کے حملوں کے سبب اسرائیل نے شمال کے اپنے علاقے شہریوں سے خالی کرالئے ہیں۔ حال ہی میں گولان کے مقبوضہ علاقوں میں متعین اسرائیلی فوجیوں پر لبنان کے تین ڈرونز نے حملہ کیا لیکن اسرائیل کا دفاعی نظام ان ڈرونز کو پکڑ نہیں سکا۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اس کا جائزہ لے رہا ہے کہ آخر کیوں دفاعی نظام ناکام ہوا۔ اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 8 اکتوبر 2023 سے اب تک حزب اللہ کے حملوں میں 12 شہری اور 16 فوجی مارے گئے ہیں۔ جبکہ حزب اللہ کے مطابق اس کے 364 ارکان مارے گئے ہیں۔

ایسی صورت میں حزب اللہ کے اندر اسرائیل سے انتقام لینے کا جذبہ فروغ پا رہا ہوگا۔ حسن نصر اللہ نے کہا بھی ہے کہ ہمیں جنگ سے ڈر نہیں لگتا۔ لیکن یہ بھی کہا ہے کہ ہم حماس سے یہ نہیں کہتے کہ وہ ہم سے ’کو آرڈنیٹ‘ کرے کیونکہ یہ ان کی اپنی جنگ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہی وہ نکتہ ہے جو اسرائیل کے منصوبوں کو ناکام کر رہا ہے۔ اس کی وہ خواہش پوری نہیں ہو رہی ہے جس کے تحت وہ پڑوس کے تمام ممالک کو جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔

ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس بار حماس کو اسرائیل کے خلاف جس نے بھی مسلح کیا ہو اور جس نے بھی اس کے 30 ہزار سے زیادہ جانبازوں کو ٹریننگ دی ہو‘ اس نے اس امر کا خیال رکھا ہے کہ یہ جنگ حماس تک محدود رہے اور اس جنگ کو حماس ہی انجام تک پہنچائے۔ اسی وجہ سے حماس کو یا اہل غزہ کو عالمی تائید بھی ملی ہے۔ واضح رہے کہ 2006 میں اسرائیل کی جارحیت کے سبب حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی تھی۔ یہ جنگ 36 دنوں تک چلی اور آخر کار اسرائیل کو ہی پسپا ہونا پڑا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ جانی نقصان تو لبنان کا ہی زیادہ ہوا لیکن مادی‘ تکنکی اور عسکری نقصان اسرائیل کا ہوا تھا۔

اس جنگ کا سبب یہ ہوا تھا کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے اس جدید ترین مسلح ٹینک پر حملہ کر دیا تھا جو اسرائیل سے متصل لبنان کی سرحد کے اندر گشت کر رہا تھا۔ بہرحال اب جنگ بندی مذاکرات کی خبروں کے پیش نظر حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ اگر حماس جنگ بندی کو قبول کرلے گی تو ہم بھی اسرائیل کے خلاف حملے روک دیں گے۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل کے وزیر دفاع یو آف گالانت نے کہا ہے کہ ہم حزب اللہ کے خلاف اس صورت میں بھی حملے نہیں روکیں گے۔

گزشتہ 10 جولائی کو حسن نصراللہ نے جو تقریر کی ہے اس نے ایک بار پھر اسرائیل میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ اسرائیل کے اخبارات اس تقریر کے نکات کا خاص طور پر ذکر کر رہے ہیں۔ نصراللہ نے ایک گھنٹہ کی تقریر میں جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’جنگ کا دسواں مہینہ اسرائیل کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ مقابلہ پر وہ فوج ہے جسے ساری دنیا سب سے زیادہ طاقتور فوج قرار دیتی ہے جبکہ اسرائیل کا جنگی ہدف حماس ہے جس کے ساتھ ساری دنیا بات کر رہی ہے۔ نتن یاہو کو معلوم نہیں ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے‘ رفح پر حملوں پر اس کا اصرار اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اس جنگ میں ناکام ہوگیا ہے۔ ہم نے بھی عہد کر رکھا ہے کہ ہم اسرائیل کو غزہ میں کامران نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ہم نے اسے یہاں کامیاب ہونے دیا تو اس کے بعد وہ لبنان کا رخ کرے گا اور پھر خطہ کے سارے ممالک پر چڑھائی کرے گا۔ ایسے میں ہم ایک نئے خطرناک دور میں داخل ہوجائیں گے جو ماضی کے تمام ادوار سے مختلف ہوگا۔ ‘

حسن نصراللہ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہاکہ : ہم نے اپنے دشمن کو شمال میں الجھا کر رکھاہے‘ اس کے ایک ہزار افسر اور فوجی اس علاقہ میں مستقل ڈیرا ڈالے رہنے پر مجبور ہیں‘ حماس کو ہماری تائید کا مقصد دشمن کو تھکا دینا اور غزہ میں جنگ کے نتیجہ سے محروم رکھنا ہے‘ ہم نے دشمن کے سامنے سماجی بحران بھی کھڑا کر دیا ہے اور اب اسے مزید فوجیوں کی ضرورت ہے‘ عالمی فریقوں کو آگاہی ہوگئی ہے کہ اسرائیل کے شمال میں جنگ بندی غزہ میں جارحیت کے موقوف ہونے پر منحصر ہے‘ غزہ میں جنگ کا روکا جانا شمال میں جنگ روکنے کا واحد راستہ ہے‘ اسرائیل کو شمال میں مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن وہ ہونے والے زبردست نقصان کو چھپا رہا ہے۔ ‘

حماس کے خلاف اس جنگ نے اسرائیل کے اندر ایک اور نئی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ وہاں اس نکتہ پر اب کھل کر بحث ہو رہی ہے کہ یہودیت اور صہیونیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسرائیل میں ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ کم سے کم دوسال تک فوج میں خدمات انجام دے۔ لیکن اب تل ابیب کی سڑکوں پر نوجوان یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ ’’ہم یہودی ہیں لیکن ہم صہیونی فوج میں بھرتی ہونے کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔

ان نعروں سے دراصل اسرائیل کے معاشرہ میں یہودیت اور صہیونیت کا فرق نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ حماس نے بھی اسرائیل کے شہریوں کو یہ باور کرانا شروع کر دیا ہے کہ وہ ہر اسرائیلی یا ہر یہودی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان شرپسند‘ جارحیت پسند اور سخت گیر صہیونیوں کے خلاف ہے جو اہل فلسطین کا حق مار کر اب انہیں چین سے جینے بھی نہیں دینا چاہتے۔ اسرائیل کے اندر بہت سے طبقات ایسے شرپسندوں کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کر رہے ہیں۔

مشہور یہودی صحافی ’گیڈیون لیوی‘ تو اس جنگ کے پہلے دن سے نتن یاہو کو ’سنکی‘ پاگل اورخونی تک لکھ رہے ہیں۔ مشہور اخبار ’ہارٹز‘ کے مضامین اور ادارئے مسلسل نتن یاہو کے خلاف اور غزہ کے مکینوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ تمام صورت احوال اسرائیل کے سرپھروں‘ شرپسندوں اور فلسطینیوں کے قاتلوں کیلئے کوئی نیک فال تو بالکل نہیں ہے۔ جنگ آج بند ہو یا کل نتن یاہو کی ’مشرق وسطی‘ کا نقشہ بدلنے کی ضد تو کبھی پوری نہیں ہوگی۔ بلکہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کی ضد خود اس کا حلیہ بگاڑ دے گی۔۔۔