اسرائیل گزشتہ بیس برسوں سے حزب اللہ کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا، اور وہ اس پوزیشن میں تھا کہ جب چاہے حسن نصراللہ اور اس تنظیم کے ٹھکانوں بشمول ہیڈ کوراٹرز کو نشانہ بنا سکے۔
لبنانی جنگجو تنظیم حزب االلہ کے مقتول رہنما سید حسن نصراللہ کی ہلاکت کیا مخبری کے بغیر ممکن تھی؟ مشرق وسطیٰ کے ایک اہم ترین رہنما کی ہلاکت کے بعد یہ سوال زبان زد عام ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے کس طرح حزب اللہ کی تمام تر سرگرمیوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔
ایران نواز اس لبنانی جنگجو گروہ کے لیے اپنی ہی صفوں میں جاری دراندازی کو روکنا ایک بڑا چیلبج قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیلی دفاعی افواج حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے، اس کے مواصلاتی ذرائع کو غیر فعال کرنے اور اعلیٰ ترین رہنما کو قتل کرنے کے قابل ہوئی ہیں، حالانکہ حسن نصراللہ گزشتہ کئی سالوں سے روپوش تھے اور ان کے صرف انتہائی قریبی حلقے ہی جانتے تھے کہ وہ کہاں ہیں۔
حزب اللہ کے جنگجوؤں پر ہوئے پیجر اور واکی ٹاکی حملوں کے ایک ہفتے بعد حسن نصراللہ کی کمانڈ ہیڈ کوارٹرز میں ہلاکت اس بات کی غماز ہے کہ اسرائیلی اںٹیلی جنس میں کوئی جھول نہیں ہے۔ حسن نصراللہ کی ہلاکت حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی حملوں کے بھرپور سلسلے کا نتیجہ ہے، جس نے حزب اللہ کی قیادت کونسل کے نصف حصے کے ساتھ ساتھ اس کی اعلیٰ فوجی کمان کو ہی ختم کر دیا ہے۔
نصراللہ کے قتل سے چند دن پہلے اور اس کے چند گھنٹوں بعد روئٹرز نے لبنان، اسرائیل، ایران اور شام میں ایک درجن سے زائد ذرائع سے بات کی، جنہوں نے اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کو پہنچنے والے نقصانات کی تفصیلات فراہم کیں۔ ان تمام ذرائع نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز سے گفتگو کی۔
اسرائیلی دفاعی حکمت عملی کے بارے میں علم رکھنے والے ایک شخص نے حملے سے 24 گھنٹے قبل روئٹرز کو بتایا تھا کہ اسرائیل دراصل گزشتہ 20 برسوں سے حزب اللہ کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا اور وہ اس پوزیشن میں تھا کہ جب چاہے حسن نصراللہ اور ان کی تنظیم کے ٹھکانوں بشمول ہیڈ کوراٹرز کو نشانہ بنا سکے۔
اس شخص نے تفصیلات فراہم کیے بغیر اسرائیلی انٹیلی جنس کو ‘شاندار‘ قرار دیا۔
دو اسرائیلی عہدیداروں نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کے قریبی وزرا نے بدھ کے روز حسن نصر اللہ پر حملے کی اجازت دی تھی۔ یہ حملہ اس وقت ہوا، جب نیتن یاہو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک میں تھے۔
حسن نصراللہ کو خدشات تو لاحق ہی تھے
حسن نصراللہ سن 2006 کی جنگ کے بعد سے عوامی سطح پر آنے سے گریز کر رہے تھے۔ ان کے حفاظتی انتظامات سے واقف ذرائع کے مطابق وہ طویل عرصے سے محتاط تھے جبکہ ان کی نقل و حرکت محدود تھی اور بہت کم لوگ ہی ان کے بارے میں باعلم تھے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ نصراللہ کے قتل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے کسی قریبی ساتھی نے ہی اسرائیل کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں مخبری کی۔
حزب اللہ کے رہنما 17 ستمبر کو ہوئے پیجر دھماکوں کے بعد سے معمول سے کہیں زیادہ محتاط ہو گئے تھے۔ انہیں خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اسرائیل انہیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔ مارے جانے والے کمانڈروں کے جنازے میں نصراللہ کی عدم موجودگی اور چند روز قبل نشر ہونے والی ایک تقریر کی قبل از وقت ریکارڈنگ کی وجہ یہی خدشات تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی اس تجزیاتی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں حزب اللہ کے میڈیا آفس سے بھی رابطہ کیا لیکن اس تنظیم کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنوبی بیروت میں ایک رہائشی عمارت کے نیچے زیر زمین ہیڈ کوارٹرز پر کیے گئے بم حملے میں حسن نصراللہ ہلاک ہوئے۔
حزب اللہ کے لیے بڑا دھچکا
سویڈش ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ میگنس رانسٹورپ نے روئٹرز کو بتایا، ”یہ حزب اللہ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا اور اس کی انٹلیجنس کی ناکامی ہے۔‘‘ حزب اللہ ایکسپرٹ رانسٹورپ نے بتایا کہ اسرائیلی خفیہ اداروں کو علم تھا کہ حسن نصراللہ اعلیٰ کمانڈروں سے مل رہے ہیں اور اسی وقت حملہ کر دیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے نصراللہ سمیت حزب اللہ کے نو اعلیٰ ترین فوجی کمانڈروں میں سے آٹھ کو ہلاک کیا ہے۔ یہ تمام حملے اسی سال کیے گئے۔
17 اور 18 ستمبر کو ہونے والے پیجراور واکی ٹاکی دھماکوں میں حزب اللہ کے تقریبا 1500 جنگجو معذور بھی ہوئے۔