اردو خبر خاص

میرے افکار الگ، آپکے افکار الگ

Mukhtar Tilhari Saqlaini Bareilly
================
·
یہ امریکہ سے آنے والا پیغام مسرت صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ تمام محبان اردو اور مجھ خاکسار سے محبت کرنے والے حضرات کے لیے باعث مسرت ہے ملاحظہ کیجئے

++++++++++++++++++++++++++++++++++++++

ہر تیر چلا ہے دِل کی طرف
اُلفت کی نئی منزل کی طرف

میں نے جناب مختار تلہری صاحب کا کوئی نشانہ چوکتا نہیں دیکھا۔ اُنکا کلام وہ ترکش ہے جسکا کوئی تیر ضائع نہیں گیا۔ جناب مختار تلہری صاحب بہت کامیاب نشانے باز یعنی کہنہ مشق سخنور ہیں۔ اُنہوں نے کوئی بھی شعر صرف کہنے کے لئے نہیں کہا ہے بلکہ کرنے کے لئے کہا ہے۔ مثلاً

اسکے رونے پہ اعتبار ہو کیا
آنسوؤں میں فریب شامل ہے
اور اسی غزل میں آگے فرماتے ہیں :
ہار مانی تھی جس نےکل مجھ سے
آج پھر وہ مِرے مقابل ہے

اِنکے یہاں پُر فریب اشک کو بے اثر ، فتح کو عارضی، اور ہار کو ضدّی قرار دیا گیا ہے، جس میں آگاہی شامل ہے۔ بُرا بھلا لگنے کے خوف سے شاعر آزاد ہے۔ صاف گوئی اُنکی شاعری کا کردار ہے، مگر صاف گوئی بھی ایسی جو صاف لگے مگر صاف نہ ہو۔ صرف وہی سمجھے جسکو تیر کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ بقول غالب، «کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو»۔

یوں تو اکثر شعراء میں خیال کی گہرائی، مفہوم کی اونچائی، زباں پر گیرائی ملتی ہے۔ مگر تلہری صاحب کے سخن میں ان سب کے ساتھ ساتھ ان سب تک پہنچنے کے لئے راستہ ہم وار کیا گیا ہے۔ اس پر میں ان کا یہ شعر سُنائے بِنا نہیں رہوں گا:

محبّت کا دیا جل کر بُجھا، ایسے نہیں ہوتا
تو جاری ظلمتوں کا سلسلہ ایسے نہیں ہوتا

اور یہ دیکھیے مُندرجہ ذیل خیال کی گہرائی، شعر میں صاف گوئی، اور زباں میں سادہ مزاجی کی شیرینی سے آپ کی طلب کو بیدار کرنے کی یہ بہترین مثال حاضر ہے۔

بہت دامن بچا کر جھاڑیوں میں چلنا پڑتا ہے
گلوں تک جانے کا طے راستہ ایسے نہیں ہوتا

اور ساتھ ساتھ علمِ عروض اور غزل کی ہیئت پر انکی پوری نگاہ رہی ہے۔ قافیہ آرائی پر ان کا مکمّل عبور ہے۔ اور کبھی کبھی ان کے قافیے ان کے اشعار میں بے تکلّفی، اپنے پن، اور بے باکی کے رنگ بھی بھرتے ہیں۔ میں اپنے مُنہ سے کیا کہوں؟ آپ خود مُلاحظہ فرمائیں
بڑھا کے آنکھ کے تِنکے کو بھی شہتیر کرتے ہیں

چلو اچّھا ہے کچھ تو وہ میری تشہیر کرتے ہیں
چلو ساحل پہ چل کر دیکھتے ہیں داستانِ غم
سُنا ہے ڈوبنے والے بھی کچھ تحریر کرتے ہیں

ان دو اشعار نے ہماری دونوں آنکھوں میں سمندر بھرنے کا کام کر ڈالا۔ ہم یہ کہنا ضرور چاہیں گے کہ ان کے کلام کو پڑھنے کے بعد ہم کسی کے کلام کو پڑھنے کی بھول نہیں کرتے۔ اسکے بعد سارے کلام پھیکے ہو جاتے ہیں، خاص کر ہماری شاعری۔ مٹھائیوں کے سامنے چائے پھیکی پڑنا قدرتی بات ہے۔

انکی شاعری میں چسک، شیرینی، اور تمام خوبیوں کے باوجود مجھے ایک بات بہت ناگوار گزرتی ہے۔ وہ یہ کہ انکی شاعری سے میں احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں۔

میرے سامنے ادیبوں اور شاعروں کی بہت سے مثالیں ایسی ہیں کہ اُردو کی مدد سے لوگ اپنے آپ کو بڑھاتے ہیں یعنی کہ اُردو سے سیڑھیوں کا کام لیتے ہیں نہ کہ اُردو کا فروغ کریں۔ مگر تلہری صاحب کی مثال ان اُردو دانوں میں ہے جو اُردو کو اوپر لاکر خود اپنی جگہ نیچے کھڑے رہتے ہیں۔ وہ اُردو اور اُردو شاعری کو پرموٹ کرتے ہیں، خود کو نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ اتنے مستند شاعر ہوتے ہوئے بھی شہرت کے طلبگار نہیں۔ وہ خود بھی خود کو دوسروں سے الگ سمجھتے ہیں۔ انکے نئے اشعار میں مجھے یہ شعر یاد آ رہا ہے:
کیوں نہ پھر آپ سے ہوتے مرے اشعار الگ

میرے افکار الگ، آپکے افکار الگ
جناب محترم مختار تلہری صاحب بے شک اُستادانہ صلاحیت کے مالک ہیں۔ مجھے علم ہی نہ ہوا کہ کب میری جھولی بھی انکے اُستادانہ مشوروں سے سیراب ہوئی۔ ان کے اشعار میں کوئی خیال کبھی دوسرا جنم نہیں لیتا ہے، جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ اِن کے یہاں خیالات کی کیا کمی ہے؟ وہ اپنے الفاظ و خیالات کے انتخاب میں بہت محتاط بھی ہیں۔ آپ اپنی اس احتیاط کی ایک مصرعے میں عکّاسی کرتے ہیں۔

ہم نے چُن چُن کے رکھے پھول الگ خار الگ
میری خوش قسمتی ہے کہ تلہری صاحب سے میری مُلاقات کا شرف میرے ایک بچپن کے عزیز دوست جناب ڈاکٹر انور انصاری صاحب کے ذریعے حاصل ہوا، زہے نصیب
میری خواہش اور تمنّا ہے کہ میں تلہری صاحب کو امریکہ بُلاؤں۔ کاش میری خواہش اور میرے ساتھیوں کی خواہش پوری ہو، جو یہاں امریکہ میں اُردو کی خِدمت و فروغ میں لگے ہوئے ہیں ۔

مختار تلہری صاحب کی دس سے زائد کتابیں شائع ہو کر منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ آپکے اعزازات کی فہرست بہت طویل ہے۔ علامہ اقبال اوارڈ، داغ دہلوی اوارڈ، فخرِ ادب اوارڈ، افتخارِ ادب اوارڈ، چراغِ ادب اوارڈ، اور دو لائف اچیومنٹ اوارڈ تلہری صاحب کو حاصل ہوئے ہیں۔ ساتھ ساتھ آپ کی شاعری اور شخصیت پر کئی جشن بھی
منعقد ہو چکے ہیں۔ تو کیوں نہ ایک جشن ان کے اعزاز میں امریکہ میں منعقد کیا جائے؟

اُن کو بلانا ہمارے لئے باعثِ فخر ہوگا۔ ہم بے چینی سے انکے منتظر ہیں۔

چلتے چلتے میں انہیں کے شعر کو انہیں پر منسوب کرتا جاؤں
اسکی تعریف کرنا مشکل ہے

ماہِ کامل تو ماہِ کامل ہے
پروفیسر افروز نقوی تاج
یونیورسٹی آف نورتھ کیرولائنا،
چیپل ہل
یو ایس اے