اردو خبر قومی

مودی تیئیس اگست کو یوکرین پہنچیں گے

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی جمعہ تیئیس اگست کو یوکرین پہنچیں گے۔ مودی نے گزشتہ ماہ روس کا دورہ بھی کیا تھا۔

بھارتی وزارت خارجہ نے آج بروز پیر بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی یوکرین کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اس دورے کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، تاہم یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی جمعہ 23 اگست کو یوکرین پہنچیں گے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر شائع کردہ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی صدر وولودیمیر زیلنسکی کی دعوت پر یوکرین جا رہے ہیں۔

یہ وزیر اعظم نریندر مودی کا نہ صرف کییف اور ماسکو کے مابین جاری تنازعے کے آغاز کے بعد سے یوکرین کا پہلا دورہ ہو گا بلکہ زیلنسکی کے دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’’دو طرفہ تعلقات کی تاریخ میں یہ بھارتی حکومت کے کسی سربراہ کا ہمارے ملک کا پہلا دورہ ہو گا۔‘‘

اس دورے کے لیے اپنی بیرون ملک موجودگی کے دوران مودی پولینڈ بھی جائیں گے جبکہ گزشتہ ماہ انہوں نے روس کا دورہ بھی کیا تھا۔ تب ان کے روس کے دورے سے چند گھنٹے قبل روس کی متعدد یوکرینی شہروں پر بمباری کے نتیجے میں تین درجن سے زائد شہری ہلاک ہو گئے تھے جبکہ کییف میں ایک بچوں کے ہسپتال کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

ماسکو میں موجودگی کے دوران مودی کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گلے ملنے کی تصاویر بھی سامنے آئی تھیں، جس پر یوکرینی صدر زیلنسکی کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔

بھارت نے اب تک ماسکو کے یوکرین پر حملے کی واضح الفاظ میں مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔ وہ ان دونوں ہمسایہ ممالک پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ اپنے درمیان جاری تنازعے کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کریں۔

سال 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے ماسکو کو مغربی ممالک کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ تاہم مغربی دباؤ کے باوجود بھارت نے روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل کی خریداری جاری رکھی ہے۔ ساتھ ہی بھارت مغربی ممالک کے ساتھ سکیورٹی کے معاملات پر اپنی شراکت داری بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسی دوران بھارت نے ماسکو پر زور دیا ہے کہ روسی فوج کی معاونت کے لیے بھرتی کیے گئے اس کے شہریوں کو واپس بھیجا جائے۔ ان میں سے کئی بھارتی شہریوں کو جنگ لڑنے بھی بھیج دیا گیا تھا اور اب تک کم از کم پانچ کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

دریں اثنا امریکہ نے بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جب کہ واشنگٹن ایشیا پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر نئی دہلی کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔