اردو خبر خاص

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!

Sanaullah Khan Ahsan

karachi, pakistan
===========
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!
ہم کو اپنے بچپن سے لے کر لڑکپن تک کی شب براءت اور اس کے حلوے یاد ہیں۔ جب تک والدہ محترمہ حیات تھیں ہمارے گھر باقاعدگی سے شب براءت کا حلوہ اور کونڈوں کی ٹکیاں اور کھیر پوریاں بنا کرتی تھیں۔
شب براءت کا حلوہ اس طرح بنتا تھا اور اسی طرح گھی یا جست کے کنٹینرز میں رکھا جاتا تھا۔ سوجی کا گیلا حلوہ تو نیاز کے لئے بنتا تھا جس پر نیاز دے کر پاس پڑوس کے گھروں میں بانٹا جاتا تھا۔ ہماری والدہ سوجی کو قدرے بھون کر ھلکا براؤن سا کرلیا کرتی تھیں کیونکہ بغیر بھونی سوجی کا سفید سفید سا حلوہ کچھ کچا کچا سا لگتا تھا جبکہ بریاں سوجی کے حلوے کے ذائقے کی بات ہی الگ ہوتی تھی۔ خالص قدرے موٹی دانے دار سُوجی ہوا کرتی تھی۔ سوجی اور چنے کی دال کے حلوے کی چاشنی والی قتلیاں سینی میں جمائ جاتیں اور ان پر پستہ بادام اور کھوپرے کی ہوائیوں کے علاوہ چاندی کے ورق بھی لگائے جاتے۔ پھر ان کو برفی نما کاٹا جاتا۔ اگر بتیوں کے تیز گاڑھے خوشبودار دھویں میں سفید چاندنی بچھے فرش پر رکھے تھال اور حلوہ۔ باہر محلے کے آوارہ لونڈوں کے پھوڑے پٹاخے گونجنے کی آوازیں اور گندھک کی بُو۔ ہم پر پٹاخے وغیرہ پھوڑنے کی سخت پابندی تھی۔ سوجی کا گیلا حلوہ سات عدد روغنی مانڈوں میں لپیٹ کر سینی میں خوان پوش سے ڈھک کر بطور خاص مسجد میں بھجوایا جاتا۔
چنے کی دال کے حلوے کی قتلیاں تو ہم ھفتے بھر میں چٹ کرجاتے تھے البتہ سوجی کی چاندی کے ورق لگی قتلیاں مہینہ بھر تو چل ہی جایا کرتی تھیں۔ خاص طور پر گرمیوں کی دوپہر میں کھانے کے بعد جب سب قیلولہ کرتے اس وقت ہم دبے پاؤں باورچی خانے میں جاکر ایک عدد قتلی نکالتے اور پھر اس کو کھاتے ہوئے ہمدرد نونہال پڑھتے یا پھر چھپ کر جاسوسی اور سب رنگ ڈائجسٹ پڑھتے کہ اس وقت ہمارا یہ ڈائجسٹیں پڑھنا منع تھا۔

والدہ مرحومہ ( اللہ پاک ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے) کے ھاتھ کے بنے حلوے کی قتلیاں اور ان پر لگے بادام پستے کی ہوائیاں ناریل کا برادہ اور کشمش آج تک یاد ہے۔

شدید گرمیوں کے دنوں میں جب شب بارات آتی تو وہ کتنے ذوق و شوق سے پانچ پانچ کلو سوجی کو کڑاھی میں بھونا کرتی تھیں۔
سب سے مشکل چنے کی دال کا حلوہ بنانا تھا۔ پہلے پانچ کلو چنے کی دال کو پانچ کلو دودھ میں ابالا جاتا۔ پھر اس دال کو سل بٹے پر پیسا جاتا اور پھر اس کی کڑاہی میں کسائ ہوتی۔ کسائ بھی ایسی کہ زرا سا بھی نہ لگنے پاتا۔ جیسے جیسے چنے کی کچی دال کی خوشبو کی جگہ بھنتے ہوئے آمیزے کی سوندھی مہک آنے لگتی اور دال کا رنگ ھلکا سا براون ہونے لگتا ویسے ویسے ویسے والدہ کے چہرے پر تکلیف اور تھکن کے آثار بھی نظر آنے لگتے۔ کبھی وہ دائیں بازو سے کڑچھا چلاتیں تو کبھی بائیں ھاتھ سے۔

بالآخر جب چنے کی دال اچھی طرح بھن جاتی تب اس کو ایک خاص قوام کی چاشنی میں ڈال کر حلوہ بنایا جاتا۔ پہلے سے گھی لگی سینیوں میں یہ گرما گرم حلوہ انڈیل کر پھیلا دیا جاتا اور اس پر چاندی کے ورق کے ساتھ پستہ بادام کھوپرا اور کشمش بھی بکھیر دی جاتی۔ چنے کی دال کی قتلیاں حلوہ ٹھنڈا ہونے کے بعد برفی نما تکونی کاٹی جاتیں جبکہ سوجی کے حلوے کو طشت میں گرم گرم ہموار پھیلانے کے بعد فورا” تیز چھری سے کاٹ کر نشانات لگا دئے جاتے کیونکہ ٹھنڈا ہونے پر سوجی کا حلوہ سخت ہوجاتا تھا۔

پھر ان تھالوں کو پنکھے کے نیچے رکھ دیا جاتا تاکہ جلدی ٹھنڈے ہوجائیں۔
ٹھنڈا ہونے پر ان قتلیوں کو ایک دوسرے پر سلیقے سے جما کر شیشے کی برنیوں یا ائر ٹائٹ ڈبوں میں محفوظ کردیا جاتا۔
رات کو والدہ اپنے بازووں پر آیو ڈیکس اور ھاتھوں کے چھالوں پر مرہم لگواتیں۔ لیکن کیا مجال جو چہرے پر کوئ ناگواری یا ماتھے پر شکن آتی ہو۔ ھنستے ہوئے ہم بچوں سے باتیں بھی کرتی جاتیں۔ ہمارے والد اور والدہ اس حلوے میں سے بمشکل کبھی کبھار ہی کچھ چکھ لیا کرتے تھے۔ آج سوچتا ہوں کہ ہمارے والدین یہ سب ہماری خوشیوں کے لئے ہی تو کرتے تھے

بالکل ایسا ہی منظر رجب کے کونڈوں میں ہوتا تھا جب پانچ کلو میدے کی میٹھی ٹکیاں بنا کرتی تھیں اور تین کلو میدے کی پوریاں۔ ان کے ساتھ دس سیر دودھ کی گلابی کھیر جو پک پک کر پانچ سیر رہ جاتی اور چھولوں کی ترکاری۔
آج ایک کلو چنے کی دال کسنے میں ھاتھ لگوانا پڑ جائے تو محاورتا” نہیں بلکہ حقیقتا” میّا یاد آجاتی ہے۔😢😪😪
یہ احترام ٕ روایت و روئیت بھی تھا اور وضع داری کا تسلسل اور روحانی آسودگی کا سبب بھی۔
دم توڑتی روائتیں، کل اسکے چشم دید لوگ بھی نظروں سے سے اوجھل ہوجائیں گے

اب نہ والدہ رہیں نہ وہ حلوے اور تہوار۔
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھُول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

تحریر✍🏻
#ثنااللہ_خان_احسن
#sanaullahkhanahsan