اردو خبر دنیا

مصر میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا سلسلہ جاری, صدر عبدالفتاح السیسی کو کسی چیلنج کا سامنا نہیں

مصر میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ انتخابات میں صدر عبدالفتاح السیسی کو کسی چیلنج کا سامنا نہیں اور یقینی دکھائی دے رہا ہے کہ وہ 2030 تک اقتدار میں رہیں گے۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کی وجہ سے یہ انتخابات کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ مصر کے قریب سبھی شہریوں کی توجہ اپنے ملک کی مشرقی سرحدوں پر جنگ اور ساحلی علاقوں میں فلسطینی شہریوں کے مصائب پر مرکوز ہے۔
اتوار سے شروع ہونے والی تین روزہ ووٹنگ ایسے وقت بھی ہو رہی ہے جب غزہ کی صورت حال کے علاوہ مصر کو شدید معاشی بحران کا بھی سامنا ہے۔

السیسی کو تین دیگر امیدواروں کا سامنا ہے جن میں حزب اختلاف کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ فرید زہران، عبدالصناد یمامہ اور ریپبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ حازم عمر شامل ہیں۔

صدارتی انتخابات میں السیسی کو چیلنج کرنے والے نوجوان امیدوار احمد التانتاوی اس وقت انتخابات کی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے جب وہ اپنی امیدواری کے لیے مقامی لوگوں سے مطلوبہ دستخط حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انہوں نے اپنی ناکامی کا ذمہ دار سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے ان کی انتخابی مہم کے عملے اور حامیوں کو ہراساں کرنا قرار دیا۔

قاہرہ کے نواحی علاقے میں قائم ایک پولنگ سینٹر میں صبح نو بجے پولنگ شروع ہوتے ہی السیسی نے ووٹ ڈالا لیکن سینٹر سے باہر نکل کر انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ حازم عمر سمیت دیگر امیدواروں نے بھی اتوار کی صبح اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

انتخاب کرانے کا ذمہ دار ادارہ نیشنل الیکشن اتھارٹی ہے جس کی سربراہی عدلیہ کر رہی ہے۔ ادارے مطابق اگر کوئی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتا ہے تو اگلے مرحلے میں ’رن آف الیکشن‘ کے لیے 8 سے 10 جنوری تک ووٹ ڈالے جائیں گے۔

بیرون ملک مقیم مصریوں نے انتخابات سے قبل ہی یکم تا 3 دسمبر کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

ووٹنگ سے قبل وزارت داخلہ نے انتخابات کو محفوظ بنانے کے لیے ملک بھر میں ہزاروں فوجی تعینات کیے تھے۔

چھ کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور حکام کو امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالے جائیں گے، جو انتخابات کو قانونی حیثیت دینے کے لیے بھی ضروری ہے۔
پیشہ ور فوجی افسر السیسی پہلی بار 2014 کے وسط میں اس وقت صدر منتخب ہوئے تھے، جب انہوں نے بطور وزیر دفاع منتخب صدر کا تختہ الٹ دیا تھا۔

السیسی سن 2018 میں دوسری چار سالہ مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے تھے۔ تب انہیں صرف ایک مخالف امیدوار کا سامنا تھا جو آخری لمحات میں اس دوڑ میں شامل ہو گئے تاکہ انہیں بلا مقابلہ منتخب ہونے کی شرمندگی سے بچایا جا سکے، کیونکہ بہت سے امیدواروں کو انتخابات کی دوڑ سے زبردستی نکال دیا گیا تھا اور کچھ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سن 2019 میں ایک ریفرنڈم میں منظور ہونے والی آئینی ترامیم نے السیسی کی دوسری مدت میں دو سال کا اضافہ کیا اور انہیں تیسری، چھ سالہ مدت کے لیے انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔

السیسی کے اقتدار کے دوران حکام نے ان سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن جاری رکھا۔ حکومت کے ہزاروں ناقدین کو یا تو خاموش کر دیا گیا یا جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان میں اسلام پسندوں کے علاوہ ممتاز سیکولر کارکن بھی شامل ہیں، جنہوں نے سن 2011 کی بغاوت میں حصہ لے کر حسنی مبارک کا اقتدار ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔