اردو خبر خاص

مائیکرو سیفلی کی پہچان کیا ہے؟ کیا یہ ایک جینیا تی مرض ہے؟ مائیکرو سیفلی اور شاہ دولہ کے مزار کا کیا تعلق ہے؟

پاکستان میں مائیکروسیفلی سے متعلق پھیلی مختلف افواہوں کا سرا گجرات میں واقع شاہ دولہ کے مزار سے ملتا ہے۔ مائیکرو سیفلی کا مرض کیا ہے اور اس سے جڑے تواہم میں کتنی حقیقت ہے؟ یہ جاننے کے لیے یہ رپورٹ پڑھیے۔

پاکستانی معاشرے میں سائنسی معلومات کی کمی ہے جس کے باعث یہاں مختلف امراض سے متعلق تواہم با آسانی پھیل جاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک مرض ”مائیکرو سیفلی‘‘ بھی ہے جس میں بچے کا سر اس کی عمر کے حساب سے بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دورانِ حمل بچے کے دماغ کو پہنچنے والا کوئی نقصان یا اس کی درست نشونما کا نہ ہونا ہے۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں ہر 800 تا 5000 میں سے ایک بچہ مائیکرو سیفلی کا شکار ہے۔ پاکستان میں کے پی کے اور کشمیر میں اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد زیادہ ہے جہاں ہر ایک ہزار میں ایک بچہ مائیکرو سیفلی کا مریض ہے۔ ان علاقوں میں مرض پھیلنے کی بنیادی وجہ جینیاتی ہے جہاں پچھلی 4 سے 6 نسلوں میں خاندان سے باہر شادیاں نہیں کی جاتیں۔

 

مائیکرو سیفلی کی پہچان کیا ہے؟
ڈاکٹر محمد طلحہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور سے وابسطہ ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس مرض سے متاثرہ بچوں کی جسمانی نشونما سست اور قد عموماً چھوٹا ہوتا ہے جسے ‘بونا پن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دماغ کا سائز چھوٹا ہونے سے ان کی دماغی نشونما درست نہیں ہو پاتی۔ یہ بچے بولنے اور سننے میں مسائل کے علاوہ دیگر اعصابی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ مائیکرو سیفلی سے متاثرہ بچوں میں ذہنی معذوری کی مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں۔ ان میں بہت سے نارمل بچوں کی طرح تمام افعال سر انجام دیتے ہیں۔ نیز یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چھوٹے سر والا بچہ مائیکرو سیفلی ہی کا شکار ہو۔

کیا یہ ایک جینیا تی مرض ہے؟
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے محققین نے مائیکرو سیفلی سے متاثرہ 680 بچوں پر تحقیق کی جن میں سے 41 فیصد میں مرض کی وجہ واضح نہیں تھی۔ ماہرین کے مطابق حمل کے دوران بچے کے دماغ کو نقصان پہنچنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں جینیاتی پیچیدگیاں اور خاندان میں شادی سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ماں اگر دوران ِحمل زیکا اور روبیلا وائرس یا چکن پاکس کا شکار ہوئی ہو یا اسے کوئی شدید انفیکشن ہوا ہو تو اس سے بچے کا دماغ زخمی ہوسکتا ہے۔

سن 2022 میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بایو کیمسٹری نے یونیورسٹی آف سندھ جامشورو کے شعبہ فزیا لوجی کے تعاون سے مائیکرو سیفلی سے متاثرہ دو خاندانوں کا جینیاتی تجزیہ کیا تھا۔ صوبہ سندھ میں حیدر آباد اور ٹنڈو آدم سے تعلق رکھنے والے ان خاندانوں کی چار نسلیں انہی علاقوں میں آباد ہیں اور ان میں ‘کزن میرج‘ کا رواج عام ہے۔

اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر زیب النساء مغل قائداعظم یونیورسٹی شعبہ بایو کیمسٹری سے با حیثیت محقق وابسطہ ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دنیا بھر میں اب تک مائیکروسیفلی کا باعث بننے والی 28 جین دریافت ہوئی ہیں۔ جبکہ ان کی تحقیق سے پاکستان میں مائیکرو سیفلی کا ایک نیا ویریئنٹ سامنے آیا ہے جس کا تعلق پروٹین ٹرمینیشن میوٹیشن سے ہے۔

ڈاکٹر زیب النساء کے مطابق ان کی تحقیق میں متاثرہ خاندانوں کے صحت مند افراد کی جین کا موازنہ مائیکرو سیفلی کے مریضوں کی جین سے کیا گیا تھا۔ اس تحقیق سے جین میوٹیشن کے جو نتائج سامنے آئے وہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے مریضوں میں بھی نوٹ کیے گئے تھے۔

وہ بتاتی ہیں کہ متاثرہ خاندان اور عام افراد میں اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ کزن میرج یا نسل در نسل خاندان میں شادیاں اس مرض کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے۔

ڈاکٹر زیب النساء کے مطابق مائیکرو سیفلی کے مریضوں کے چہرے کے خدوخال نارمل افراد سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ کیونکہ مائیکرو سیفلک جین کی وجہ سے ان کے دماغ میں سیریبرل کارٹیکس چھوٹا رہ جاتا ہے جس سے کرینیئم کا متعلقہ حصہ نیچے ہوجاتا ہے اور بچے کی پیشانی بیٹھ جاتی ہے۔

مائیکرو سیفلی اور شاہ دولہ کے مزار کا کیا تعلق ہے؟
پاکستان میں مائیکرو سیفلی سے متعلق بنیادی معلومات کی شدید کمی ہے۔ پاکستان کے شہر گجرات میں حضرت شاہ دولہ کا مزار 18 ویں صدی سے ان تواہم پرستی اور افواہوں کا مرکز رہا ہے۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق سن 1839 میں پشاور میں کرنل کلاؤڈے مارٹن ویڈ کے مشن سیکرٹری شہامت علی نے حضرت شاہ دولہ کے مزار پر موجود چھوٹے سر والے بچوں کو”چوہوں‘‘ سے تشبہہ دی تھی۔

بعد ازاں ان بچوں کو عام افراد میں بھی شاہ دولہ کے چوہے یا شاہ دولے کہا جانے لگا جو انتہائی قبیح فعل ہے۔ روایت ہے کہ دور دراز سے خواتین شاہ دولہ کے پاس بانجھ پن کے علاج کے لیے آتی تھیں۔ ان خواتین پر لازم تھا کہ وہ اپنے پہلے بچے کو مزار کے مجاوروں کے پاس چھوڑ جائیں۔ ان میں زیادہ تر بچوں کا سر چھوٹا اور دہانہ باہر نکلا نظر آتا تھا اور دیکھنے میں یہ عام بچوں سے مختلف ہوتے تھے۔


کیا مصنوعی طریقے سے دماغ کو چھوٹا کرنا ممکن ہے؟
شاہ دولہ کے مزار سے متعلق ایک اور افواہ یہ مشہور ہے کہ شاہ دولہ کی وفات کے بعد مجاورین مزار پر چھوڑے جانے والے نارمل بچوں کو لوہے کی ٹوپی پہنا دیتے تھے جس سے ان کے سر کی نشو ونما رک جاتی تھی۔ ایسے بچوں کو یہ مجاورین اور مافیا بھیک مانگنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ بچے پنجاب بھر میں مزاروں اور سڑکوں پر انتہائی کسم پرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔

شاہ دولہ کے مزار پر موجود ان بچوں کے متعلق افواہوں کی حقیقت جاننے کی کوشش تقریباً ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے۔ سن 1884 میں برٹش میڈیکل جرنل اور انڈین میڈیکل گیزٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں مفصل تحقیق کے بعد چھوٹے سر کو پیدائشی نقص اور ان بچوں کو مریض قرار دیاگیا تھا ۔

سن 1928 میں ہندوستان میں میڈیکل سپرنٹینڈنٹ نے ایسے مریضوں کے متعلق سن 1868 سے 1903 تک میڈیکل لٹریچر کا جائزہ لیا۔ بعد ازاں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مائیکرو سیفلی کے مریض پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اور لوہے کی ٹوپیوں والی افواہیں سرا سر بے بنیاد ہیں۔

ڈاکٹر طارق خان نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجیکل انجینئرنگ سے باحیثیت پرنسپل سائنٹسٹ وابسطہ ہیں۔ ڈاکٹر طارق اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھتے ہیں کہ کھوپڑی کے جس حصے میں دماغ ہوتا ہے اسے کرینئم کہتے ہیں۔ کرینئم کی ہڈیاں ابتداء میں جڑی نہیں ہوتیں۔ بڑھتے دماغ کے دباؤ کے ساتھ کرینئم 18 مہینے کی عمر تک ہر مہینے تین سینٹی میٹر کی شرح سے پھیلتا رہتا ہے۔ چار سے چھ سال تک کرینئم کے پھیلنے کی شرح سالانہ ایک سینٹی میٹر ہوتی ہے۔

ڈاکٹر طارق خان اپنے مضمون میں وضاحت کرتے ہیں کہ اگر دماغ کسی نقص کی وجہ سے بڑھنا بند ہوجائے تو کرینئم پر پھیلنے کے ليے مناسب دباؤ نہیں پڑتا۔ نتیجتاً سر کا مجموعی حجم چھوٹا رہ جاتا ہے۔ اسی لیے اس مرض کو مائیکرو سیفلی یعنی چھوٹی کھوپڑی کہا جاتا ہے۔

پرنسپل سائنٹسٹ ڈاکٹر طارق خان مزید لکھتے ہیں کہ اگر کھوپڑی کو لوہے کی ٹوپی سے زبردستی چھوٹا رکھنے کی کوشش کی جائے تو تیزی سے بڑھتا ہوا دماغ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کی ساخت کواتنا شدید نقصان پہنچ سکتا ہے کہ بچے کا زندہ بچنا مشکل ہے۔

ان کے مطابق طبی تحقیق اور پوسٹ مارٹم معائنے کے دوران ان بچوں کے دماغ کا حجم چھوٹا ہونے کے علاوہ ساخت میں کسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ کے آثار کبھی نہیں ملے۔ یعنی میڈیکل سائنس مزار سے متعلق افواہوں کی یکسر تردید کرتی ہے۔