Uncategorized خاص

لال حویلی، باغ سرداراں اور حویلی سجان سنگھ کے مکین کون تھے، کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے؟

لال حویلی، باغ سرداراں اور حویلی سجان سنگھ کے مکین کون تھے، کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے؟ عالیشان مندر اور گردوارے، نا اہلی اور قبضہ گیری کی گرد میں کیسے گم ہوئے؟ اور ہم ثقافتی ورثے کے طور پر محفوظ کیوں نہ ہو سکے؟

راجہ بازار کے شور اور بے ہنگم رش سے گزرتے ہوئے ذرا سی نگاہ اوپر اٹھی نہیں کہ کسی قدیم عمارت نے آپ کے قدم وہیں روک لیے۔ لکڑی سے بنے چوبارے اور مندر یا گردوارے کے مینار آپ کو حال سے نکال کر دور ماضی میں لے جاتے ہیں جب یہاں کی مقامی آبادی میں اکثریت ہندوؤں اور سکھوں کی تھی۔ یہاں کے رئیس اپنے لیے شاہانہ انداز کی رہائش گاہیں تعمیر کر رہے تھے جس کی جھلک سجان سنگھ حویلی اور باغ سرداراں کی باقیات میں دیکھی جا سکتی ہے۔

باغ سرداراں اور سجان سنگھ حویلی
’راول راج‘ کے مصنف اور خطہ پوٹھوار کی ثقافت کو علمی حلقوں میں ازسر نو زندہ کرنے والے محقق سجاد اظہر کہتے ہیں کہ سجان (بعض اوقات انہیں سوجان یا سوجن سنگھ بھی لکھا جاتا ہے) سنگھ اپنے وقت کے اتنے بڑے بڑے رئیس تھے کہ آج کے پاکستان میں ان کی کوئی مثال نہیں۔

راول راج میں وہ لکھتے ہیں، ”سجان سنگھ حویلی کی تعمیر نو 1890 میں شروع کی گئی جب سجان سنگھ نے اپنے آبائی گھر کو ایک شاندار محل میں بدلنے کے لیے ہندوستان کے نامور ماہرین تعمیرات کی خدمات حاصل کیں۔ اس کی افتتاحی تختی حویلی پر نصب تھی جسے 1990 میں سکریپ میں بیچ دیا گیا۔”

54 سال یہ حویلی سجان سنگھ خاندان کے زیر استعمال رہی جس کے اندورنی حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے سجاد اظہر کہتے ہیں، ”حویلی کے مکین سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے تھے اور شاہانہ فرنیچر موجود تھا۔ صحن میں مور ناچتے تھے اور برآمدوں میں شیر بندھا ہوتا۔ شام کو حویلی سے سریلی موسیقی کی آوازیں آتی تھیں۔ دروازوں، چھتوں اور چوباروں پر لکڑی کا انتہائی دیدہ زیب کام تھا۔ حویلی کی تعمیر میں استعمال ہونے والا لوہا اور لوہے کی چادریں اور تانبہ برطانیہ سے منگوایا گیا تھا۔ 1937 میں اس حویلی میں بجلی بھی آ گئی۔”

باغ سرداراں بھی سجان سنگھ نے تعمیر کروایا تھا جہاں باغات، گھاس کے میدان اور بارہ دریاں تھیں۔

رفیق احمد خان نے ‘مائی اولڈ بٹ ایور نیو پنڈی‘ کے نام سے اپنی یاداشتیں لکھیں جس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ تب راجہ بازار شور سے پاک ایک پُرسکون مقام تھا جس میں دو مانوس آوازیں سنائی دیتی تھیں، ان میں سے ایک ”باغ سرداراں میں ہر گھنٹے بعد بجنے والی گھڑیال کی آواز تھی جو دور کھڑے لوگوں کو اونچی سنائی دیتی جبکہ قریب کھڑے لوگ اسے بہت آہستہ سے سن سکتے تھے۔ اس کی مثال لندن کے مشہور ‘بگ بین‘ کی طرح تھی۔”

تقسیم کے بعد راجہ بازار کی تاریخی عمارتوں پر کیا بیتی؟
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سجاد اظہر بتاتے ہیں، ”تقسیم کے وقت راولپنڈی میں کم و بیش 48 گردوارے اور مندر تھے۔ جن میں سے بعض کے رقبے ایکڑوں پر محیط تھے۔ ان پر قبضے کیے گئے اور محکمہ اوقاف انہیں بچانے میں ناکام رہا… سجان سنگھ حویلی کشمیر سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کی گئی تھی اور 1982ء تک یہاں چالیس سے زائد خاندان مقیم رہے۔ پھر اسے خالی کروا لیا گیا۔”

راولپنڈی کے پرانے رہائشی حسین احمد خان ‘راولپنڈی کی یادیں‘ میں لکھتے ہیں، ”ستم ظریفی دیکھیے کہ جہاد کشمیر کے دوران یہاں قبائلیوں کو ٹھہرایا گیا جو کلاک ٹاور پر نشانہ باندھتے تھے جس کی وجہ سے یہ تباہ ہو گیا۔”

رفیق احمد خان کے مطابق باغ سرداراں کا تاریخی گھڑیاں ”نا اہل، کرپٹ اور بے حس انتظامیہ کی نذر ہو گیا اور اسے گرا کر کباڑیوں کو فروخت کر دیا گیا۔”

شکوہ رفتہ میں گم تاریخی عمارتیں آج کس حال میں ہیں؟
ڈی ڈبلیو اردو کے لیے اپنی تحریر لکھتے ہوئے ہم نے راجہ بازار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں موجود تاریخی مقامات کی موجودہ صورت حال جاننے کے لیے دورہ کیا۔

بھابھڑا بازار سے ایک تنگ گلی میں تھوڑا آگے چلے تو سجان سنگھ حویلی کی خستہ عمارت نے بیک وقت حیرت اور صدمے سے دوچار کیا۔

یہ گلی کی دونوں جانب ایک بلند عمارت ہے جسے لکڑی کے ایک پل نے آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ ایک طرف کا حصہ مکمل کھنڈر بن چکا ہے جبکہ دوسری طرف محل نما کمرے کسی ویرانے کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دروازوں پر بھاری قفل چڑھے تھے۔ ادھ کھلی کھڑکیاں موجود، مگر ایسا لگا جیسے ان میں تانک جھانک کے سلسلے منقطع ہوئے زمانے بیت چکا۔ حویلی کو اندر سے دیکھنے کے لیے کمشنر کے دفتر سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔


وہاں سے راجہ بازار آئے جہاں کئی مندروں اور گردواروں کے مینار گھروں کی بھر مار اور مارکیٹ کے شور میں سہمے ہوئے تھے۔ مختلف مقامی افراد سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ اب لوگوں کی رہائش گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ البتہ لال حویلی سرخ انار کی طرح چمک رہی تھی جو اب عوامی مسلم لیگ کا مرکزی دفتر ہے۔

لال حویلی سے فوراہ چوک کی طرف آتے ہوئے راستے میں باغ سرداراں پڑتا ہے۔ یہ سی آئی ڈی کا دفتر ہے جسے وزٹ کرنے کے لیے کچہری جا کر تحریری اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ باغ سرداراں کو ایک طرف سے سیمنٹ کی بلند و بالا دیوار جبکہ سامنے سے مارکیٹ نے پوری طرح چھپا رکھا ہے، جیسے یہ کوئی جرم ہو۔

مندر، گردوارے، حویلیاں، باغ اور لائبریریاں ثقافتی ورثہ کیوں نہ بن سکیں؟
ہرمیت سنگھ کی راجہ بازار میں کپڑے کی دکان ہے اور وہ ان چند سکھوں میں سے ایک ہیں جن کے آبا و اجداد نے تقسیم کے بعد ہجرت نہیں کی۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”میں چھوٹا تھا، کبھی کبھار میرے دادا میری انگلی پکڑ کر صرافہ بازار کی نکڑ پر لاتے، گردوارے کے مینار دکھاتے اور بتاتے کہ ہم نے یہاں گرو گرنتھ صاحب کو پڑھا، یہاں کے کنویں سے پانی پیا۔ پھر اپنے بچپن کو یاد کرتے اور ان کی آنکھیں برسنے لگتیں۔ وہ ساری زندگی اس صدمے سے باہر نہ آ سکے کہ ان کے بچپن کا گردوارہ، بے نام رہائش گاہ اور نمکو کی دکانوں میں تقسیم ہو گیا۔ چند گردوارے اور مندر چھوڑ دیے جاتے تو کیا آبادکاری کا عمل تعطل کا شکار ہو جاتا؟ تقسیم کے وقت محض انسانوں کا نہیں انسانی جذبات کا بھی خون ہوا۔”

سجاد اظہر کہتے ہیں، ”یہ مندر، گردوارے، باغ، لائبریریاں اور حویلیاں دراصل راولپنڈی اور تقسیم سے پہلے کی زندگی کے سب سے مستند حوالے تھے، یہ محض اینٹ اور لکڑی کے ڈھانچے نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی ثقافت تھی جس کی مدد سے ہم تقسیم سے پہلے کے رسم و رواج، عقائد اور فنون جان سکتے تھے۔ لیکن ہم یہ سب جاننا ہی کیوں چاہیں گے؟‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ”ورثے کی حفاظت وہ قومیں کرتی ہیں جو اسے اون کریں، ہمارے بیانیے کی بنیاد ہی ہندوؤں اور سکھوں سے نفرت پر استوار ہوئی۔ ہمارے لیے یہ کبھی ورثہ تھا ہی نہیں کہ اِسے محفوظ کرنے کی بات ہوتی۔

=============
فاروق اعظم