اردو خبر خاص

غیر متنوع جینومک مطالعات سائنس کے لیے ‘نقصان دہ‘, ہم میں سے بہت سے لوگ کینسر جیسی بیماریوں میں کیوں مبتلا ہوتے

محققین لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں رہنے والوں کے جینز میں تغیرات کے بارے میں بتدریج سیکھ رہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ان مقامی آبادیوں کے علاج میں بہتری آئےگی۔

اس بات کے اشارے جینیاتی اختلافات کے درمیان موجود ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگ کینسر جیسی بیماریوں میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور ایسی بیماریوں کے علاج کی صورت میں ہمارا جسم کیسے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

انسانی ڈی این اے کا 99.9% ہم سب میں یکساں ہے لیکن اس کا محض 0.1% ایسا ہے جو ہم میں سے ہر ایک میں مختلف ہے اور یہی چیز یہ بات واضح کر سکتی ہے کہ صحت کے حوالے سے ہم مختلف کیوں ہیں۔

جینیات اور جینومکس میں بہت زیادہ تحقیق ہو چکی ہے، کیونکہ یہ شعبے وضاحت کرسکتے ہیں کہ جینز ایک نسل سے دوسری نسل میں کیسے منتقل ہوتے ہیں اور کس طرح ہمارے تمام جینز یعنی ہمارا جینوم، اس امکان کوکم یا زیادہ بناتا ہے کہ ہم کسی بیماری کا شکار ہوں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ 80 فیصد جینیاتی مطالعات صرف یورپی نسل کے لوگوں پر کیے گئے ہیں، اس لیے یہ دنیا بھر کی آبادی کے محض 20 فیصد کی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور یہی چیز کچھ ماہرین کے مطابق طب میں نا انصافی یا ‘جینومکس گیپ‘ کی وجہ بن رہی ہے۔

برازیل میں ‘یونیورسیڈاڈ فیڈرل ڈی میناس جیرائس‘ کے جینیاتی ماہر ایڈوارڈو تارازونا سانتوس کے بقول، ”طب میں نا انصافی ہے، خاص طور پر جینیات میں: ہم دیگر نسل کے لوگوں کے مقابلے میں یورپی نسل (یورپی یا امریکی سفید فام) کے لوگوں میں بیماریوں کی جینیاتی بنیاد کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔‘‘

تارازونا سانتوس اس نا انصافی کو دور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ لاطینی امریکہ میں دو مقامی آبادیوں میں جینیاتی اختلافات کے بارے میں اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اینڈیئن پہاڑی علاقوں میں جبکہ دوسری ایمیزون کے نشیبی علاقوں بستی ہیں۔

طبی شمارے ‘سیل‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان جینیاتی اختلافات کے سبب خون کے لوتھڑے یا بلڈ کلاٹس بننے اور ہائی کولیسٹرول کے علاج کرنے والی ادویات کے مختلف ردعمل سامنے آتے ہیں۔

ایک دوسرے سے محض 100 سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ان دو آبادیوں کے درمیان جینیاتی اختلافات اتنے ہی بڑے تھے، جتنے یورپی اور مشرقی ایشیائی اقوام کے افراد کے درمیان دیکھے گئے تھے۔

تارازونا سانتوس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارے نتائج اس بات پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ نسلی گروہ جنہیں ہم اکثر یکساں سمجھتے ہیں، جیسا کہ امریکہ کے مقامی لوگوں کی نسلیں، دراصل وہ (جینیاتی حوالے سے) یکساں نہیں ہیں۔‘‘

مقامی گروہوں کے درمیان جینیاتی اختلافات
تارازونا سانتوس کی ٹیم نے 17 مقامی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے 249 افراد کے جینیاتی ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ تحقیق کے شریک مصنف وکٹر بورڈا کے مطابق، ”اس کے بعد ہم نے ان جینیاتی تغیرات کی جانچ کی جو ادویات پر ردعمل کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘

انہوں نے اینڈیئن ہائی لینڈرز اور ایمیزون کے نشیبی علاقوں میں رہنے والی مقامی آبادیوں کے درمیان دو مخصوص جینز میں فرق پایا۔ ایک کو ‘اے بی سی جی 2‘ اور دوسرے کو ‘وی کے او آر سی 1 ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

یہ جینیاتی متغیرات اہم ہیں کیونکہ ‘اے بی سی جی 2‘ کولیسٹرول کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائی سمواسٹیٹن کی تاثیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بورڈا کے مطابق جن افراد میں جینیاتی متغیرات کا مختلف امتزاج موجود ہے، انہیں ایک مختلف دوا کا استعمال کرنا چاہیے۔

نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ‘وی کے او آر سی 1‘ کے ویریئنٹس یا متغیرات وارفارین نامی دوا کی تاثیر پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ دوا بلڈ کلاٹس کے علاج اور دل کے دورے اور فالج کے خطرے کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

تارازونا سانتوس کا کہنا ہے، ”ہم نے دیکھا کہ 69 فیصد اینڈیئن میں جبکہ ان کے مقابلے میں ایمیزونین کے 93 فیصد لوگوں کو وارفارین کی کم خوراک کی ضرورت ہوگی کیونکہ ان میں ‘وی کے او آر سی 1‘ جینیاتی متغیر موجود ہے۔

برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی کے جینیاتی ماہر سیگن فتومو کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق اس بات کی مثال ہے کہ جینیاتی ماہرین کو دیگر متنوع آبادیوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟

فتومو کے بقول، ”دنیا بھر میں (اینڈیئن اور ایمیزون کے مقامی لوگوں) جیسی بہت سی دوسری آبادیاں ہیں جن کا اسی طرح مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

غیر متنوع جینومک مطالعات سائنس کے لیے ‘نقصان دہ‘
فتومو کے مطابق جینومکس کی تحقیق کو بر وقت متنوع نہ کرکے سائنس نے ‘خود کو نقصان‘ پہنچایا ہے: ”دیگر آبادیوں میں بھی اسی طرح کے یکسان جینیاتی ویریئنٹس پائے جاتے ہیں۔ وہ نئے علاج تلاش کرنے میں مدد کرسکتے ہیں، اور ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں کچھ ادویات کچھ لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں لیکن دوسروں کے لیے نہیں۔‘‘

لیکن چیزیں اب بدل رہی ہیں۔ افریقہ اور ایشیا کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ میں جینیاتی تجزیے جاری ہیں، جو اکثر بڑے پروگراموں کا حصہ ہیں، جیسے نائجیریا 100K جینوم پراجیکٹ۔

اور تارازونا سانتوس کے تحقیقی گروپ نے ایک بہت بڑے ڈیٹا سیٹ پر کام شروع کر دیا ہے، جس میں مختلف مقامات پر آباد مقامی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے 60 ہزار برازیلی افراد کے جینوم کی سیکوئنسنگ کی جا رہی ہے۔

نئی جینیات کے حوالے سے نئی عالمی تحقیق کے اب فوائد سامنے آنے لگے ہیں۔ فتومو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارے پاس ایسے علاج ہیں، جو کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں اور دل کے دورے کو روکتے ہیں۔ پی سی ایس کے 9 انہیبیٹرز اس لیے دریافت ہوئے کیونکہ کچھ افریقی نسل کے افراد میں پی سی ایس کے 9 جین میں جینیاتی متغیرات موجود تھے، جن کی وجہ سے ان میں کولیسٹرول کم تھا۔‘‘

فتومو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اسی طرح دیگر علاج بھی دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کے جینوم کے تجزیے کی مدد سے دریافت ہو سکیں گے۔