اردو خبر دنیا

غزہ میں پانچ لاکھ باشندوں کو غذائی عدم تحفظ کی ”انتہائی تشویش ناک‘‘ صورتحال کا سامنا

غزہ شہر میں اپنے اہل خانہ کے لیے اشیائے خور و نوش خریدنے کے خواہش مند زیادہ تر فلسطینی مایوس ہیں کیونکہ وہ کھانے پینے کی اشیاء کی کمیابی اور شدید مہنگائی کے سبب ایسی مصنوعات کو بس دیکھ کر ہی رہ جاتے ہیں۔

غزہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس فلسطینی علاقے میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں چار گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں غزہ پٹی میں شدید نوعیت کے انسانی بحران کے شکار خاندانوں پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے جب کہ جنگ بندی کی بھی کوئی فوری امید نظر نہیں آتی۔

شمالی غزہ سے تعلق رکھنے والے ابو عصام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سبزیاں، گوشت، انڈے، کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ”کہاں ہیں حکومتیں؟ کہاں ہیں ان کے رہنما؟ انہیں ہماری مدد کرنا چاہیے۔ ہم پر رحم کرنا چاہیے۔ میں ایک بات بتاتا ہوں، میں کل بھوکا سویا تھا۔‘‘

غزہ سٹی کے رہائشیوں نے بتایا کہ اس وقت وہاں صرف تین آلوؤں کی قیمت 150 شیکل (اسرائیلی کرنسی) یا اکتالیس امریکی ڈالر کے برابر ہے جبکہ جنگ سے پہلے وہاں ایک کلو آلو صرف دو شیکل یا تقریباﹰ نصف ڈالر میں خریدے جا سکتے تھے۔ اسی طرح شہد کے جس ایک جار کی قیمت پہلے 25 شیکل تھی، وہ اب 85 شیکل میں بک رہا ہے۔

غزہ سٹی کے اکثر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر ڈبوں میں بند مصنوعات پر انحصار کر رہے ہیں، جو کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی عدم دستیابی کے پیش نظر اس علاقے میں تقسیم کی جانے والی امدادی خوراک کے طور پر مل جاتی ہیں۔

ایک اور شہری ابو انور حسنین نے بتایا، ”وہ انگور جن کی کاشت ہم اپنی زمینوں پر کیا کرتے تھے، اب انہی کو خریدنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا بیٹا اگر کوئی چیز خریدنے کے لیے ان سے پیسے مانگتا ہے، تو پانچ شیکل بھی اب کوئی ایک چیز خریدنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔

دنیا بھر میں غذائی قلت اور قحط کے خطرات پر نظر رکھنے والے ایک ادارے کی گزشتہ ماہ جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں قحط سالی کا خطرہ اس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک وہاں جنگ جاری رہے گی اور عام شہریوں کی بیرونی امداد تک رسائی بھی محدود ہو گی۔

عالمی سطح پر غذائی عدم تحفظ پر نظر رکھنے والے ادارے آئی پی سی کے مطابق غزہ میں تقریباﹰ پانچ لاکھ باشندوں کو غذائی عدم تحفظ کی ”انتہائی تشویش ناک‘‘ صورتحال کا سامنا ہے۔

یہ صورت حال اس لیے بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ جنگ سے پہلے بھی غزہ پٹی کی 45 فیصد آبادی غربت کی زندگی بسر کر رہی تھی اور دستیاب افرادی قوت میں بے روزگار افراد کا تناسب 45 فیصد تھا۔

غزہ سٹی کے رہنے والے ایک مزدور محمد الکتنانی کہتے ہیں، ”ہمارا زندہ رہنا مشکل ہے۔ ہم کچھ خرید نہیں سکتے۔ ہم اپنا کام بھی نہیں کر پا رہے ہیں، اور ہمارے پاس بچا کھچا تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

ابو انور حسنین نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ”یہاں حاملہ خواتین بھی ہیں۔ وہ کیسے اپنے صحت مند حمل کو برقرار رکھیں گی؟ وہ کیسے اپنے بچوں کو جنم دیں گی؟ ہر طرف تو بیماریاں پھیلی ہیں اور بھوک ہے۔‘‘

غزہ میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں اب تک 40500 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور یہ پورا فلسطینی خطہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فعال عالمی اداروں کے مطابق غزہ کی تقریباﹰ 2.3 ملین کی مجموعی آبادی میں سے اب تک زیادہ تر لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور انہیں خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا بھی ہے۔

غزہ کی جنگ پچھلے سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے جبکہ 250 سے زائد افراد کو حماس کے عسکریت پسند یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی لے گئے تھے۔