اردو خبر دنیا

غزہ میں عارضی فائربندی پر عمل درآمد شروع, اسرائیل اور حماس کی موجودہ جنگ: کب کیا ہوا؟

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے، تاہم اسرائیلی فوج کے مطابق اس معاہدے کی مدت کے خاتمے پر فوجی آپریشن دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔

اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے تحت چار روز تک فائر بندی نافذالعمل رہے گی، جب کہ اس دوران غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی تقسیم کے علاوہ حماس پچاس اسرائیلی یرغمالی رہا کرے گی اور اس کے جواب میں اسرائیل سے ڈیڑھ سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے میں بارہ سو اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ حماس کے جنگجوؤں نے دو سو چالیس کے قریب اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ حماس کے اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں بڑی عسکری کارروائی شروع کر دی تھی، جس کے نتیجے میں غزہ میں وزارت صحت کے مطابق تقریباً 14 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

فائربندی کے نفاذ کے بعد لبنانی سرحد پر بھی مقابلتاً سکون
اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی فائر بندی پر عمل درآمد کے بعد لبنانی سرحد پر بھی مقابلتاً سکون دکھائی دے رہا ہے۔ لبنان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق جنوبی سرحد پر عالمی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے سے مکمل سکون ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف عسکری کارروائی کے ساتھ ساتھ اسرائیل لبنان میں ایران نواز شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف بھی برسرپیکار ہے۔ فی الحال حزب اللہ کی جانب سے اس ڈیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

قطری ثالثی میں عسکری تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے تحت غزہ میں چار روزہ فائربندی پر اتفاق کیا گیا ہے، اس دوران غزہ کے شہریوں تک ہیومینیٹیرین امداد پہنچائی جائے گی۔ اس کے علاوہ حماس یرغمال بنائے گئے پچاس اسرائیلی شہری رہا کرے گا، جس کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید ڈیڑھ سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے لیے امریکہ اور مصر نے بھی مذاکرات میں مدد کی تھی۔

واضح رہے کہ حماس کی طرح حزب اللہ بھی امریکہ اور یورپی یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔

‘فریقین کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں‘
کنگز کالج لندن سے وابستہ جنگی امور کے محقق مائیک مارٹن کے مطابق اس جنگ کا سب سے بڑا مسئلہ اعتبار کا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ”کوئی بھی فریق دوسرے پراعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘ مارٹن کے مطابق فریقین اس وقت ٹھیک اسی پوزیشن پر موجود ہیں، جہاں انہوں نے جنگ روکی۔

آج جمعے سے اس معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد فریقین پہلے مرحلے میں کچھ قیدی آزاد کریں گے۔ مارٹن کے مطابق حماس نے اس معاہدے سے قبل اصرار کیا تھا کہ اسرائیل غزہ پٹی کی فضائی حدود میں پروازوں سے پرہیز کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس نے اسرائیلی قیدیوں کو غزہ کے مختلف مقامات پر بکھیرا ہوا ہے اور اب انہیں خفیہ طور پر تبادلے کے مقام پر منتقل کرنا چاہتی ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی میں متعدد سرنگیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ زیر زمین سرنگیں حماس اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

امدادی ٹرک غزہ پہنچنا شروع
حماس اور اسرائیل کے درمیان فائربندی کے ساتھ ہی درجنوں امدادی ٹرک مصر سے غزہ پہنچا شروع ہو گئے ہیں۔ رفح سرحدی کراسنگ سے غزہ میں داخل ہونے والے ان دو سو ٹرکوں پر ایک لاکھ تیس ہزار لٹر ڈیزل کے علاوہ چار ٹرکوں کے ذریعے گیس بھی پہنچائی گئی ہے۔

غزہ کی جنگ سے پہلے مصر سے غزہ پہنچنے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد یومیہ پانچ سو کے قریب ہوتی تھی۔ اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ اس عارضی فائر بندی وقفے میں زیادہ سے زیادہ امدادی سامان غزہ پہنچا دیا جائے۔

اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، جرمن وزیر خارجہ
وفاقی جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے ایک بار پھر اسرائیل کے اپنے دفاع کے حقپر زور دیا ہے۔ انہوں نے جرمن شہر کارلسروہے میں منعقد ہونے والے گرین پارٹی کے وفاقی کنوینشن میں کہا کہ اگر حماس کی دہشت گردی کا مقابلہ نہ کیا گیا، تو اسرائیل کو کبھی بھی تحفظ اور سلامتی میسر نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ حماس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ بیئربوک نے تاہم اس امر پر بھی زوردیا کہ اگر فلسطینیوں کو اپنے بہتر مستقبل کے آثار نظر نہ آئے، تو اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ جرمن وزیر خارجہ کے بقول، چاہے دو ریاستی حل آج بہت دور ہی کیوں نہ لگے، آنے والے کل کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔

اسرائیل اور حماس کی موجودہ جنگ: کب کیا ہوا؟

سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے اور اسرائیل کی غزہ میں جوابی کارروائی کے بعد سے دونوں کے مابین جنگ جاری ہے، جس میں غزہ پٹی میں اب تک تیرہ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ غزہ کی جنگ کی ٹائم لائن:

اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے مابین غزہ میں سات ہفتوں سے جاری جنگ میںچار روزہ فائر بندی کے لیے اتفاق رائےبدھ بائیس نومبر کو ہوا تھا، جس کے تحت حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تقریباﹰ 240 افراد میں سے 50 کی اور اسرائیل کی جیلوں میں قید 150 فلسطینیوں کی رہائی بھی ممکن ہو سکے گی۔

تاہم ایک پورا دن گزر جانے کے باوجود آج جمعرات 23 نومبر کو اب تک اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور اسرائیل نے کہا ہے کہ اس ڈیل پر عمل جمعہ 24 نومبر سے پہلے نہیں ہو سکتا۔

اس حوالے سے اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ فائر بندی ڈیل سے متعلق حماس کے ساتھ (بالواسطہ) بات چیت ابھی جاری ہے۔

اسرائیل اور حماس کی موجودہ جنگ کے دوران اب تک کے اہم واقعات کی ٹائم لائن:

7 اکتوبر: حماس نے اسرائیل پر اچانک ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا، جس کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی کے علاقے میں زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے۔ اسرائیل کے مطابق حماس کے اس حملے میں 1,200 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ 240 افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے۔ دوسری جانب فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک 13,000 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں کم از کم 5,600 بچے بھی شامل ہیں۔

13 اکتوبر: اسرائیل نے غزہ پٹی کے لاکھوں عام شہریوں کو اس خطے کے شمال سے جنوب کی طرف چلے جانے کا حکم دے دیا۔

17 اکتوبر: غزہ کے الاہلی عرب ہسپتال میں ایک دھماکہ ہوا، جس میں کئی افراد مارے گئے۔ فلسطینیوں نے اس دھماکے کا ذمے دار اسرائیل کو ٹھہرایا لیکن اسرائیل کا موقف تھا کہ یہ دھماکہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے فائر کیے گئے ایک راکٹ کی وجہ سے ہوا۔

20 اکتوبر: حماس نے دو امریکی یرغمالی خواتین کو رہا کر دیا۔

21 اکتوبر: مصر سے امدادی سامان لانے والے ٹرکوں کو رفح کی سرحدی گزرگاہ کے راستے غزہ پٹی میں داخلے کی اجازت مل گئی۔

23 اکتوبر: حماس نے دو بزرگ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔

26 اکتوبر: اسرائیل کی جانب سے سات اکتوبر کے بعد سے غزہ میں سب سے بڑی فوجی کارروائی کی گئی، جس میں حماس کی اینٹی ٹینک میزائل لانچ پوسٹس اور عسکری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا۔

27 اکتوبر: اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ وہ غزہ پٹی میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسعت دے رہی ہے۔

28 اکتوبر: اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کے دوسرے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔

31 اکتوبر: اسرائیل کا غزہ کے شمالی علاقے میں واقع جبالیہ مہاجر کیمپ پر حملہ، جس میں حماس کے مطابق 50 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیل نے کہا کہ اس حملے میں حماس کا ایک کمانڈر بھی مارا گیا تھا۔

1 نومبر: غزہ سے غیر ملکیوں، دوہری شہریت کے حامل باشندوں اور ایسے شدید زخمی افراد کا انخلا شروع ہو گیا، جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔

6 نومبر: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے غزہ کو ”بچوں کا قبرستان‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری فائر بندی کا مطالبہکیا۔

13 نومبر: اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ غزہ کے الشفاء ہسپتال میں حماس کا ایک ہیڈ کوارٹر بھی قائم ہے۔ حماس نے اس الزام کی بھرپور تردید کی۔

15 نومبر: اسرائیلی اسپیشل فورسز الشفاء ہسپتال میں داخل ہو گئیں اور انہوں نے وہاں سے ہتھیار ملنے کا دعویٰ کیا۔ بعد ازاں اسرائیل کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اس ہسپتال میں ایک سرنگ کا داخلی راستہ بھی موجود ہے۔

22 نومبر: اسرائیل اور حماس کے مابین غزہ میں چار روزہ فائر بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی ایک ڈیل پر اتفاق رائے ہو گیا، جس کے لیے ثالثی قطر نے کی۔ اس ڈیل پر عمل درآمد 23 نومبر سے ہونا تھا مگر اس روز ایسا نہ ہو سکا۔