اردو خبر خاص

شہد خالص مگر شفا ندارد؟ : تحریر – #ثنااللہ_خان_احسن ،کراچی پاکستان

Sanaullah Khan Ahsan

karachi, pakistan
============·
شہد خالص مگر شفا ندارد؟
پاکستان میں اتنے زیادہ شہد کی اقسام ہیں کہ خود مکھیاں بھی حیران پریشان ہیں۔
خالص شہد بس وہ جو آپ کے سامنے جنگلی چھتے سے اتارا گیا ہو۔ یا آپ کے کسی بااعتماد دوست عزیز نے اپنے سامنے چھتے سے اتروا کر بھیجا ہو۔ یا پھر شہد فروش واقعی کوئ بہت ایماندار اور خوف خدا رکھنے والا بندہ ہو۔جو خود اپنی نگرانی میں شہد چھتوں سے نکلواتا ہو۔ وہ اگر سپلائر سے لیتا ہے تو کچھ پتہ نہیں۔کیونکہ شہد فروشوں کی بھرمار ہے مگر ان میں سے کتنے اپنے سامنے چھتوں سے شہد نکلواتے ہیں؟
جبکہ پاکستان میں شہد کی سب سے بڑی مارکیٹ باجوڑ میں ہے۔جہاں سے ملک بھر میں سپلائ کیا جاتا ہے۔
ابھی کوئ چھ سات ماہ پہلے اندرون سندھ تھر کے دیہات سے ایک پیارے پرخلوص دوست عرفان علی نے آم کے باغ میں لگے چھتے سے اتار کرکوئ تین کلو شہد بھیجا۔ ساتھ اس ایڈونچر کی تصاویر اور وڈیو بھی بھیجی۔ بیچارے کی ایک آنکھ بھی سوج گئ تھی۔ میرے لئے یہ شہد کسی بھی چھوٹی بڑی جنگلی مکھی کے بیری یا کیکر یا کسی اور پھول کے آنلائن یا بازار میں بکنے والے شہد سے زیادہ بہتر اور قابل اعتماد اور قیمتی ہے۔ اس شہد کے جار میں نیچے سفید رنگ کا موم نما مرکب بھی جم گیا ہے جو رائل جیلی ہے۔ رائل جیلی شہد کا سب سے قیمتی جزو ہوتا ہے جو ملکہ مکھی کی غذا ہوتی ہے۔ بڑی کمپنیاں شہد گرم کرکے یہ رائل جیلی بالکل اس طرح نکال لیتی ہیں جیسے دودھ پر سے بالائ نکال لی جاتی ہے۔ یہ رائل جیلی اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ اس کے ایک گرام والے 100 کیپسولز کی باٹل تین سے پانچ ہزار روپے کی ملتی ہے۔ شہد کو اس کی موم اور رائل جیلی کے ساتھ کھانا افضل ہے، یہی وہ چیز ہے جو شہد کو شفابخش اور قوت بخش اثرات دیتی ہے۔ شہد کا موم معدے اور آنتوں کے زخم بھرتا ہے۔ جوڑوں کے درد میں بھی مفید ہے۔

‎رائل جیلی، جو کارکن مکھیوں کے جسم میں پیدا ہوتی ہے، کو مکھیاں اس مکھی کو کھلاتی ہیں جس کا انتخاب بطور ملکہ ہو جاتا ہے.
‎رائل جیلی کو ابتدائی تین دنوں میں سب مکھیوں کو کھلایا جاتا ہے جبکہ ملکہ کو تھوڑے لمبے عرصے تک جس کے طاقت سے ملکہ کا جسم کچھ ہی دنوں میں بڑا ہوجاتا ہے اور وہ انڈے دینے کے قابل بن جاتی ہے

رائل جیلی انسان کے بڑھاپے کو روکتی ہے۔ رائل جیلی کو زیادہ سے زیادہ ایک دن میں 3 گرام استعمال کیا جا سکتا ہے. رائل جیلی کو دمہ کے مریض اور حاملہ خواتین استعمال نہیں کر سکتی.
شہد کے چھتے کو جب کپڑے میں ڈال کر نچوڑا جاتا ہے تو خالص شہد میں رائل جیلی بھی کافی مقدار میں شامل ہوتی ہے جو کچھ دن بعد شہد کی تہہ میں ھلکے کریم گاڑھی کلر میں جمی ہوئ نظر آتی ہے۔ یہ بھی طُرفہ تماشہ ہے کہ ہمارے لوگ ایسے شہد کو کہ جس میں نیچے رائل جیلی جمی ہو گھٹیا اور ملاوٹ شدہ سمجھ کر ضائع کردیتے ہیں۔
یقینا” اصلی شہد ملتا ہے لیکن پاکستان میں جس افراط سے جنگلی چھوٹی مکھی اور بڑی مکھی کے شہد مل رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا کہ پاکستان میں کہیں نہ کہیں کوئ شہد کی نہر ضرور بہہ رہی ہے۔
شہد فارمی بھی اچھا ہوتا ہے اور وہ بھی خالص شہد ہی کہلائے گا۔ یعنی اگر شہد کا فارم ایسے علاقے میں ہے جہاں ارد گرد جنگل درخے پودوں اور پھولوں کی افراط ہے۔ لیکن اگر فارم کے مالک کا سارا انحصار مکھیوں کے لئے صرف چینی کا شیرہ مہیا کرنے پر ہو تو وہ شہد خالص ہونے کے باوجود مفید نہ ہوگا کیونکہ شہد کی افادیت ہی یہ ہے کہ مکھیاں لاکھوں اقسام کے پھولوں پھلوں سے رس چوس کر شہد بناتی ہیں جس کے شفا بخش اثرات کو قران کی سند حاصل ہے۔ آدھا کلو شہد بنانے کے لیے شہد کی مکھی بیس لاکھ پھولوں کا رس چوستی ہے اور نوے ہزار میل کا سفر کرتی ہے، یہ سفر پوری دنیا کے تین چکر لگانے کے برابر ہے۔
لیکن اگر مکھیوں کو چینی کے شیرے پر ہی لگادیا جائے تو وہ بھی محنت سے جی چرا کر شیرہ ہی چوستی ہیں اس اس کا شہد بناتی ہیں۔ ایسے چھتوں میں اصلی پھولوں کا شہد شاید بیس تیس فیصد بھی نہ ہوتا ہو۔
جنگلات اور خاص طور پر پہاڑی جنگلات میں مکھیاں پہاڑوں اور چٹانوں کی آڑ میں ایسے ایسے عظیم الجثہ چھتے بناتی ہیں کہ جن میں سے بلا شبہ منوں کی مقدار میں شہد نکلتا ہے۔ ہمالیہ کی ترائ کے جنگلات میں بے تحاشہ شہد کے چھتے ملتے ہیں۔ لیکن ان سے شہد نکالنا بڑی جان جوکھوں کا کام ہے۔
بازار میں جتنے بھی برانڈڈ شہد دستیاب ہیں وہ سب گرم کئے ہوتے ہیں جن میں سے رائل جیلی نکال لی جاتی ہے۔ جبکہ ماہرین غذائیات اس کی خصوصیات کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے گرم نہ کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ شہد کا جمنا بھی ایک فطری امر ہے اور شہد کے جمنے یا نہ جمنے کا اس کے خالص ہونے سے کوئ تعلق نہیں۔ اصلی شہد بھی جم سکتا ہے۔ موسم اور پھولوں کی اقسام کے اعتبار سے شہد کے رنگ اور ذائقے میں فرق ہوسکتا ہے۔
شہد کو اگر گرم نہ کیا گیا ہو تو اس کے جمنے کے چانسز ہوتے ہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی کم سردی میں جم جاتا ہے اور کوئی شہد شدید سردی میں۔
اچھا اب جو شہد فروش شہد کی افادیت و خواص برقرار رکھنے کے لیے اسے گرم نہیں کرتے انہیں ہمیشہ لاعلم لوگوں سے یہی شکایت سننے کو ملتی ہے کہ آپ کا شہد خالص نہیں کیونکہ یہ جم گیا ہے۔
اب کس کس کو سمجھائیں کہ یہ بات پتا نہیں کس عقل والے نے کہہ دی ہے کہ خالص شہد جمتا نہیں۔ کمپنیوں نے بھی اس ناقص علم کو خوب کیش کیا ہے، وہ شہد کو الٹرا ہیٹ ٹریٹمنٹ دے کر پیک کرتے ہیں ۔ اس میں سے رائل جیلی اور پولن نکال لیتے ہیں ۔ جس سے بلاشبہ شہد جمتا تو نہیں ہے مگر اس کی شفائی خصوصیات ختم ہو جاتی ہیں۔ ایسا شہد استعمال کرنے سے بہتر ہے کہ چینی کا شیرا استعمال کر لیا جائے۔
شہد کی مکھیوں کا چھتہ بھی اہم چیز ہے اور اس کا چبانا بعض خاص الرجیوں (مثلاً Hay Fever) میں مفید ہے۔چھتہ کا موم اعصابی درد کو دور کرتا ہے۔ ناک بند ہونے کی صورت میں اس کا ٹکڑا چبانے سے ناک فوراً کھل جاتی ہے۔
خالص شہد کی پہچان کے جتنے بھی دیسی بدیسی طریقے و ٹوٹکے ہیں وہ سب بیکار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ جعلی یا ملاوٹ شدہ شہد بنانے والے ان طریقوں کا بھی کوئ توڑ نکال لیتے ہیں۔ کچھ لوگ شہد کو خالص ثابت کرنے کے لئے چھتے سمیت پیش کرتے ہیں لیکن اس میں بھی چارسوبیسی کرنا آسان ہے۔ لہذہ خالص شہد کی جانچ صرف لیبارٹری میں ہی ممکن ہے۔
آخر میں آپ کو عام جسمانی کمزوری، بیماری کے بعد کی کمزوری، بڑھاپے کی کمزوری دور کرنے کا ایک مجرب نسخہ بتاتا ہوں۔
ڈاکٹر سجاد احمد کا نسخہ
اس کے لئے آپ کے پاس خالص شہد ہونا چاہئے۔ کسی بھی ہومیو اسٹور سے ACid Phos Q لے لیجئے۔ خواہ شوابے جرمنی کا ہو یا مسعود کا یا ڈاکٹر ضیا کا۔ اس کے ساتھ کیلشئم والی گولیاں CaCc-1000 لے لیجئے۔
اب روزانہ صبح ناشتے کے بعد اور دوپہر یا رات کھانے کے بعد ایک کپ یا آدھا گلاس پانی میں دس قطرے ایسڈ فاس، ایک یا دو چمچ شہد اور ایک Cac-1000 کی ٹیبلیٹ ڈال کر اچھی طرح حل کیجئے۔ پی جائیے۔
یہ آپ کی جسمانی اعصابی اور جنسی تینوں کموزوریاں دور کرے گا۔ بیماری کے بعد کی کمزوری کو دنوں میں ختم کرتا ہے۔
نوٹ: میری پوسٹ سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ پاکستان میں خالص شہد سرے سے دستیاب ہی نہیں۔ بالکل ملتا ہے لیکن اس کے لئے زرا تگ و دو اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔
#ثنااللہ_خان_احسن