اردو خبر دنیا

شام کے اندر اسرائیلی فوج داخل؟, اسرائیلی فوجی بفر زون میں داخل ہو گئے جو اسرائیل اور شام کے درمیان واقع ہے

 

اسرائیل نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا خیرمقدم ہی نہیں بلکہ اس کا کچھ کریڈٹ بھی لیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے شام کے سینکڑوں مقامات پر بمباری کی ہے اور اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی فوجی شام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

شام کے آمر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ آخر آگے کیا ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک شام میں ہونے والی تبدیلیاں مواقع اور خطرات دونوں پیش کرتی ہیں۔

مانیٹرنگ گروپوں نے بتایا ہے کہ ہفتے کے اواخر سے اب تک اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام میں چار سو سے زیادہ اہداف پر حملہ کیا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں شام کے فوجی بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس میں فضائی اڈے، وہ جگہیں جہاں مبینہ طور پر راکٹوں کی تحقیق کی گئی اور جہاں کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کیا گیا، جیسے مقامات شامل ہیں۔ ان اہداف میں شام کے دارالحکومت دمشق کا ایک مقام بھی تھا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سار نے پیر کے روز یروشلم میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے ان اسٹریٹجک ہتھیاروں کے نظام پر حملہ کیا، تاکہ باقی ماندہ کیمیائی ہتھیار، یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور راکٹ شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔” انہوں نے ان خطرات کی جانب نشاندہی کی، جن کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے۔

اس کے بعد اسرائیلی فوجی اس غیر فوجی بفر زون میں داخل ہو گئے جو اسرائیل اور شام کے درمیان واقع ہے اور جہاں اقوام متحدہ کے امن دستے گشت کرتے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی فوجی اس بفر زون سے بھی آگے بڑھ گئے، جو دمشق سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان سن انیس سو چوہتر کے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے اسرائیلی فوجی شام میں اتنی اندر تک پہلی بار داخل ہوئے ہیں۔

منگل کی صبح تین ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ اسرائیلی فوجی اب دمشق کے جنوب مغرب میں محض 25 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ تاہم اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اس کی تردید کی ہے۔

شام کے اندر اسرائیلی فوج داخل؟
اسرائیل نے سن 1967 میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر سن 1981 میں اس علاقے کو اپنے ملک میں ملا لیا۔ امریکہ کے علاوہ زیادہ تر عالمی برادری اس علاقے کو شام کا حصہ سمجھتی ہے اور مانتی ہے کہ اسرائیل اس پر غیر قانونی طور پر قابض ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فوجی اقدام کی یہ کہہ کر وضاحت کی کہ یہ ضروری تھا کیونکہ اسد حکومت کی وفادار فوج اس علاقے سے انخلا کر چکی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ “اسرائیل اور شام کے درمیان سن 1974 میں فورسز کی علیحدگی کا جو معاہدہ ہوا تھا، وہ ختم ہو گیا ہے۔”

نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کا یہ اقدام عارضی ہے اور یہ تب تک جاری رہے گا جب تک کوئی نیا انتظام نہیں کر لیا جاتا۔

انہوں نے یروشلم میں ایک پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ “اگر ہم شام میں ابھرنے والی نئی قوتوں کے ساتھ ہمسایہ جیسے تعلقات اور پرامن تعلقات قائم کر سکے، تو یہ ہماری خواہش ہے۔” “لیکن اگر ہم ایسا نہیں کر پاتے ہیں، تو ہم اسرائیل کی ریاست اور اسرائیل کی سرحد کے دفاع کے لیے جو بھی کرنا پڑے وہ کریں گے۔”

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ “گولان ہمیشہ کے لیے اسرائیلی ریاست کا حصہ رہیں گی۔”

اسرائیل پر بڑھتی تنقید
ان اطلاعات پر کہ اسرائیلی فوجی شام میں مزید پیش قدمی کر رہے ہیں، تنقید بھی بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ ایسا کوئی بھی اقدام سن 1974 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

اسرائیل کے سخت ترین اور مضبوط اتحادی امریکہ نے بھی کہا ہے کہ یہ اقدام صرف عارضی ہونا چاہیے۔ اسرائیل کے شمالی پڑوسی، اردن کے وزیر خارجہ نے فوجیوں کی نقل و حرکت کی مذمت کی اور سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کی نقل و حرکت کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل “شام کی سلامتی، استحکام اور علاقائی سالمیت کی بحالی کے امکانات کو سبوتاژ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔”

شامی امور کے ماہر اور تل ابیب یونیورسٹی کے وائس ریکٹر ایال زیسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “گرچہ یہ عارضی ہی کیوں نہ ہو، مقصد کیا ہے؟ میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ وہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں پر بمباری اور حملے کیوں کر رہے ہیں، جو حکومت نے چھوڑے تھے۔ لیکن فوجیوں کو آگے بڑھانے کے لیے، یہ کیا ہے؟ شام کا موڈ اسرائیل کے خلاف نہیں ہے، بالکل بھی اسرائیلی سمت میں نہیں ہے۔ کسی نے اسرائیل کا ذکر تک نہیں کیا۔ تو آخر کیوں؟ اپنے آپ کو زبردستی اس میں الجھانے پر مجبور کر رہے ہیں؟”

اسرائیلی حملے سے ہونے والی تباہی
اسرائیل اور شام کے لیے آگے کیا ہو گا؟
اسرائیلی صحافی ناداو ایال نے اتوار کے روز ایک معروف اخبار میں لکھا، “اسد کا زوال مشرق وسطیٰ میں دیوار برلن کے گرنے کے مترادف ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ایک کمزور اور ناکام ڈکٹیٹر، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ جس علامت کو ظاہر کرتے تھے۔ حزب اللہ کو اسرائیل نے بری طرح مارا ہے اور ایرانیوں کو بھی دھول چٹائی ہے، جبکہ وہ شام میں ذلت آمیز شکست سے خوفزدہ بھی تھے۔”

انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ، جس رفتاری سے شامی حکومت کا خاتمہ ہوا، اسرائیل کی زیادہ تر انٹیلیجنس سروسز بشمول ملٹری انٹیلیجنس اس سے حیران رہ گئے۔

تل ابیب یونیورسٹی کے ماہر زیسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “یہ سبھی کے لیے، خاص طور پر بشار الاسد، ایرانیوں، روس اور حزب اللہ کے لیے بھی حیران کن تھا۔ ایک نکتہ جس پر میں زور دینا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ یہ کوئی انقلاب یا احتجاج یا بغاوت نہیں تھی۔ یہ اس فوج کا ایک حملہ تھا جسے ترکی کی سرپرستی میں (شام کے باغی رہنما ابو محمد) الجولانی نے تیار کیا تھا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے لیے “مثبت پہلو” یہ ہے کہ “بشار الاسد ایران اور حزب اللہ کے درمیان ایک اہم رابطہ تھے۔ اور اب ایران کے پاس شام کی پشت پناہی نہیں رہی، اس لیے یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔”

اسرائیل میں عام نظریہ یہ ہے کہ الجولانی کی قیادت والی حیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اور دیگر اتحادی گروپوں کی پیش قدمی اسرائیل کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔

اسرائیل کے روزنامہ ہاریٹز میں اموس ہیرل نے لکھا، “یہ لبنان میں ایران اور حزب اللہ کی ناکامی کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ شام کے باغیوں نے ایرانی محور میں کمزوری اور الجھن کی نشاندہی کی اور اس کی کمزور کڑی کو نشانہ بنانے کے لیے جلدی کی۔”

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اسد حکومت کا حیرت انگیز طور پر تیزی سے خاتمہ صرف اسرائیل کی جانب سے ایرانی اتحادی گروپوں کو کمزور کرنے کی وجہ سے نہیں ہوا۔ روس برسوں سے اسد خاندان کی حکومت کا اتحادی رہا ہے اور شام میں اس کا ایک اہم بحری اڈہ بھی ہے۔

سن 2015 میں شام کی خانہ جنگی میں بڑے پیمانے پر فضائی مہم چلا کر مداخلت کی تھی۔ لیکن روس اس وقت یوکرین میں الجھا ہوا ہے اور اس کے بہت سے جنگی طیارے مشرقی یورپ میں واپس چلے گئے ہیں۔ روسی دوبارہ مداخلت کرنے کو تیار نہیں تھے، حالانکہ اس کے بعد بھی انہوں نے اسد اور ان کے خاندان کو روس میں سیاسی پناہ دے دی۔

ممکن ہے کہ شام، حزب اللہ اور ایران کی طرف سے خطرات وقتی طور پر کم ہو گئے ہوں، تاہم شام کی اگلی حکومت کی نوعیت اب بھی اسرائیل کے لیے طویل المدتی چیلنجز کھڑی کر سکتی ہے۔ ایچ ٹی ایس جیسے گروپس کی جڑیں انتہا پسندانہ نظریے سے جڑی ہوئی ہیں اور مختصر مدت کے اندر ان کے رويئے کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

زیسر کا کہنا ہے کہ “بشار الاسد کے وقت میں آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ کم از کم گولان کی پہاڑیوں میں کیا ہو رہا ہے۔ اب کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ اور اسرائیل میں لوگ بالکل اسی طرح پریشان ہیں، جیسے اردن یا دوسرے ممالک میں ہیں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *