اردو خبر قومی

‘سچی محبت’ کو ریاستی کارروائیوں کے ذریعہ کنٹرول نہیں کیا جاسکتا -دہلی ہائی کورٹ

دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ نوعمروں کے مابین ‘سچی محبت’ کو ریاستی کارروائیوں کے ذریعہ کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے اسی کے ساتھ ایک ‘نابالغ’ لڑکی کے اپنے محبوب کے ساتھ فرار ہو جانے کے متعلق نو سال پرانے کیس کو ختم کردیا۔

دہلی ہائی کورٹ نے گزشتہ روز ایک ایسے شخص کے خلاف مقدمے کو ختم کردیا، جس پر نو سال قبل ایک لڑکی کو اغوا اور ریپ کا الزام تھا، جب وہ نابالغ تھی لیکن اس عورت سے اب اس کی شادی ہوچکی ہے اور بچے بھی ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس سوورنا کانتا شرما نے اپنے فیصلے میں کہا، “عدالت بار بار اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دو افراد، جن میں ایک یا دونوں نابالغ ہوں، کے مابین سچی محبت کو قانون کی سختی یا ریاستی کارروائی کے ذریعہ کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔”

عدالت نے ایک لڑکے کے خلاف سن 2015 میں ایک نابالغ لڑکی کے اغوا اور جنسی زیادتی کے الزامات کے تحت دائر کیس کو ختم کردیا۔

کیا تھا معاملہ؟
پولیس کا دعویٰ تھا کہ جس وقت لڑکے نے لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کیے تھے اس وقت وہ نابالغ تھی لیکن ملزم نے اس کی تردید کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ لڑکی بالغ ہو چکی تھی۔

لڑکے کے ساتھ فرار ہونے کے بعد جوڑے نے لڑکے کے والدین کی رضامندی سے مسلم رسوم و رواج کے مطابق شادی کرلی۔ لیکن لڑکی کے والد نے لڑکے کے خلاف پولیس میں کیس درج کرا دیا اور جب پولیس نے ان دونوں کو پکڑا تو اس وقت لڑکی پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔

لڑکی نے عدالت کے سامنے حلفیہ بیان دیا کہ وہ اس شخص سے پیار کرتی ہے اور اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ اس کے ساتھ رضاکارانہ طورپر اور اتفاق رائے سے جنسی تعلقات قائم کیے اور اس واقعے کے وقت اس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔

خیال رہے کہ بھارت میں لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم قانونی عمر اٹھارہ برس ہے، جب کہ لڑکے کی عمر کم از کم اکیس سال ہونی چاہئے۔

‘رشتہ ختم کیا گیا تو یہ حقیقی انصاف کی ناکامی ہو گی’
دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر لڑکے کے خلاف دائر پولیس کیس کو ختم نہیں کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس جوڑے کی دونوں بیٹیوں کے مستقبل پر برا اثر پڑے گا، اور یہ موثر اور حقیقی انصاف کی ناکامی کے مترادف ہو گا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ گوکہ جوڑے نے جس وقت ازدوازجی رشتہ قائم کیا، قانون انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا،لیکن لڑکی نے ہر مرحلے پر ریاست کے بجائے اس شخص کی حمایت کی، جس کو اس نے اپنا رفیق حیات بنایا ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ دونوں کی شادی کے اب تقریباً نو سال ہو چکے ہیں اور انہیں دو بیٹیاں بھی ہیں اور دونوں اپنے بچوں کی خوشی سے پرورش و پرداخت کررہے ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا،”عدالتی نظام کو صرف قانون کی ترجمانی کرنے اور برقرار رکھنے کا کام ہی نہیں سوپنا گیا ہے بلکہ معاشرے کی حرکیات کو سمجھنا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔عدالت کا کردار محض اطلاق اور قوانین کی تشریح سے بالا تر ہے۔ اس میں افراد اور کمیونٹی پر اس کے فیصلوں کے پڑنے والے مضمرات کی تفہیم بھی شامل ہے۔”

==========
جاوید اختر، نئی دہلی