اردو خبر خاص

سعودی عرب سن 2030 میں کیسا ہو گا؟ #saudiarab #BinSalman #MBS

ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سعودی عرب کھیلوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنا تشخص بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور کس طرح ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے سعودی عرب کے پرائیویٹ انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے حوالے سے 95 صفحات پر مشتمل ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح سعودی عرب میں ایک نجی اور خودمختار انویسٹمنٹ فنڈ نے ”انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپایا ہے۔‘‘

اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح کھیلوں کے ذریعے دنیا میں سعودی عرب کی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ویمنز ٹینس ایسوسی ایشن (ڈبلیو ٹی اے) کے فائنل رواں برس نومبر کے دوران ریاض میں منعقد ہوئے، جو ایک تین سالہ معاہدے کی پہلی قسط تھی۔ ٹورنامنٹ کے لیے انعامی رقم 5.15 ملین ڈالر تھی، جو ‘اے ٹی پی فائنلز‘ کے برابر بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی مرتبہ خواتین اور مردوں کے سال کے آخر کے چیمپئنز نے ایک جیسے انعامات حاصل کیے۔

رواں برس سعودی عرب میں گالف، فٹ بال اور موٹر ریسنگ پر خرچ کی جانے والی رقم بھی حیران کن حد تک زیادہ رہی ہے۔ چونکہ متعدد شعبوں میں خواتین کے کھیلوں میں زیادہ پیشہ ورانہ مہارت کی مانگ بڑھ رہی ہے تو ایسے میں سعودی نجی فنڈ پی آئی ایف کی طرف سے پیش کی جانے والی اہم مالی مراعات کو ٹھکرانا مشکل ہے۔ خاص طور پر کھیلوں کے ایسے منظر نامے میں، جہاں خواتین کی ٹیمیں اکثر فنڈنگ اور آگے آنے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔

‘پلے دا گیم‘ نامی ادارہ عالمی کھیلوں میں جمہوریت، شفافیت اور آزادی اظہار کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ اس ادارے کے سربراہ اسٹینس ایلسبورگ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”خواتین کے کھیلوں میں سرمایہ کاری سعودی عرب کی مقامی آبادی اور باقی دنیا دونوں کو ہی بہت اچھا اشارہ دیتی ہے کہ حکومت خواتین کے لیے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”اس طرح ملک میں خواتین کے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے بارے میں کوئی زیادہ بحث نہیں کرتا ہے۔‘‘

سعودی عرب سن 2030 میں کیسا ہو گا؟
سعودی پی آئی ایف نے سن 2018 سے مردوں کے کھیل میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور یہ ملک سن 2034 کے مردوں کے عالمی کپ کی میزبانی کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ تاہم خواتین کے کھیلوں میں سرمایہ کاری کی سمت تنوع کا فیصلہ ایک یکساں طور پر سمجھا جانے والا اقدام ہے۔

ولی عہد محمد بن سلمان کی زیر قیادت ملک میں اقتصادی اور سماجی اصلاحات کے لیے ”سعودی ویژن 2030‘‘ میں خواتین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس منصوبے کا ایک اہم مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ سعودی معاشرے اور اس کی افرادی قوت میں زیادہ اہم کردار ادا کر سکیں۔

تاہم ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ”پی آئی ایف کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں نے اپنے لوگوں کے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی ذمہ داریوں کو آگے بڑھایا ہو۔‘‘

تاہم ایلسبورگ کہتے ہیں، ”مجھے یقین ہے کہ سعودی حکومت ملک میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو کھیلوں کے میدان میں لانے اور صحت مند آبادی حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔‘‘

تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ”لیکن میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ ان کی کھیل کی حکمت عملی کے پیچھے ایک اہم عنصر یہ ہے کہ وہ واقعی نہیں چاہتے کہ لوگ خواتین کے یا LGBTQ+ حقوق کی کمی کے بارے میں بات کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان تمام اچھی چیزوں کے بارے میں بات کریں، جو وہ عالمی کھیلوں اور خواتین کے کھیلوں کے لیے بھی کر رہے ہیں۔‘‘

دوسری جانب بہت سی خواتین کھلاڑی کھیلوں میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہی ہیں۔ اکتوبر 2024 میں فیفا نے اعلان کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کی تیل کی کمپنی آرامکو کے ساتھ شراکت داری اختیار کر رہا ہے۔

اس اعلان کے بعد 100 سے زائد بین الاقوامی کھلاڑیوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے، جس میں اس معاہدے کو خواتین کے کھیلوں کی اقدار اور انسانی حقوق کے ساتھ غداری قرار دیا گیا۔

ایلسبورگ کا کہنا ہے، ”جب سپانسرشپ اور شراکت داری کی بات آتی ہے تو کھلاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘