اردو خبر خاص

زیادہ ماہی گیری اور بڑھتے ہوئے سمندری درجہ حرارت نے مچھلی کے شکار کو شدید متاثر کیا ہے

صدیوں سے ماہی گیری سے وابستہ باجاؤ قبائل کے افراد ماحولیاتی تبدیلیوں اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے باعث خشکی پر منتقل ہورہے ہیں جہاں انہیں نئے اقتصادی اور شناخت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ ہے۔

انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن کے سمندروں میں رہنے والے باجاؤ قبائل کے افراد چھوٹی عمر سے غوطہ خوری سیکھتے ہیں۔ انہیں خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے۔ نسل در نسل غوطہ خوری کی وجہ سے ان میں ایسی جسمانی خصوصیات پیدا ہوچکی ہوتی ہیں جو انہیں زیادہ دیر تک پانی کے اندر رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم، انڈونیشیا کے پلاؤ پاپان جزیرے پر واقع گاؤں میں آباد سینکڑوں باجاؤ افراد کا روایتی طرز زندگی اب ختم ہو چکا ہے۔

39 سالہ صوفیان صبی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ”کبھی کبھی ہمیں ماہی گیری سے کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہونے کے بعد ہم نے اپنا ذریعہ معاش تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم اب کاشتکاری کرتے ہیں، جس سے میری آمدنی بہتر ہوگئی ہے۔‘‘

صوفیان زیرِ آب سانس روکنے کے ماہر ہیں اور وہ 10 سے 15 میٹر (33 سے 50 فٹ) تک گہرائی تک غوطہ لگا سکتے ہیں۔ اس گہرائی میں وہ سمندری جانور آکٹوپس تلاش کرتے ہیں جنہیں فروخت کرکے وہ 5 لاکھ تک کما سکتے ہیں۔

تھائی لینڈ کی چولالونگ کورن یونیورسٹی کے محقق وینگکی آرینڈو کہتے ہیں کہ تجارتی حد سے زیادہ ماہی گیری اور بڑھتے ہوئے سمندری درجہ حرارت نے مچھلی کے شکار کو شدید متاثر کیا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مچھلیوں کی نقل و حرکت اور تولیدی عمل تبدیل ہو رہا ہے۔ انڈونیشیا میں ماہی گیری کے لیے موافق 11 میں سے نصف سے زائد علاقوں میں مچھلیوں کی افزائش بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔

پلاؤ پاپان جزیرے پر رہائش پذیر ڈیولن امبوٹانگ نے بتایا کہ اس جزیرے کو گھروں کی تعمیر کے لیے موزوں پاکر ان لوگوں نے تین نسل قبل یہاں آباد ہونا شروع کیا تھا لیکن ان کے بقول خشکی پر رہنے کے مسائل کچھ مختلف ہیں۔

صوفیان سبی نے بتایا کہ لوگوں کے پاس کوئی اضافی آمدنی نہیں ہے۔ حکومت سب کچھ کنٹرول کرتی ہے جس پر ان کے اور مقامی لوگوں کے درمیان کئی مرتبہ تکرار ہوئی ہے۔

اس گاؤں میں آباد ہونے کے بعد باجاؤ افراد کی سماجی سرگرمیوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ محقق وینگکی کا کہنا ہے کہ اس سے بالخصوص نوجوان اپنی روایتی سمندری زندگی سے دور ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث ان کی شناخت میں ابہام پیدا ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی کی بدولت ان لوگوں نے سوشل میڈیا گروپس بنا لیے ہیں جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

بعض لوگ چاہتے ہیں کہ باجاؤ اپنی روایتی طرز زندگی کو بر قرار رکھیں۔ ایک طویل عرصے سے شناخت سے محروم باجاؤ حکومت کی جانب سے اپنی حیثیت کو تسلیم کیے جانے کے منتظر ہیں۔