اردو خبر خاص

روایتی کشمیری فن تعمیر زوال پذیر ہے : کالم – فرحانہ لطیف

چند روز قبل، جب میں وادی کشمیر کے شمال میں اپنے آبائی قصبے سوپور کے پرانے محلے کا دورہ کر رہی تھی، تو ادراک ہوا کہ پرانی طرز تعمیر کس قدر ماحول سے مطابقت رکھتی تھی۔ لیکن اب روایتی کشمیری فن تعمیر زوال پذیر ہے۔

میری پیدائش کنکریٹ کے بنے ہوئے جدید طرز کے ایک گھر میں ہوئی اور میری تمام عمر بھی اسی گھر میں گزری۔ مجھے معلوم ہے کہ سردیوں میں اس کو گرم رکھنے اور گرمیوں میں سرد رکھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ہر ماہ کے آخر میں بجلی کا اتنا لمبا چوڑا بل آتا ہے، تو کس بل نکل جاتا ہے۔ میرے والد سوپور کے ایک پرانے علاقے محلہ نوحمام میں دریائے جہلم کے کنارے رہتے تھے۔ بجلی اور جدید آرام و آسائش کے بغیر ہی ان کا گھر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد رہتا تھا۔

سرد علاقوں میں گھر تو ایک ضرورت ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں لوگ وسیع و عریض گھروں کو شان و شوکت کی علامت سمجھتے ہیں۔ پھر موسم اور ماحول سے مطابقت نہ رکھنے والوں گھر بنا کر پوری وادی کشمیر کنکٹریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو گئی ہے۔ جہاں ایک زمانے میں لہلاتے کھیت اور سرسبز جنگلات دکھائی دیتے تھے، وہاں کنکڑیٹ کی دیواریں کھڑی ہیں۔

شاید کسی نے ان کو نہیں بتایا کہ چلو گھر تو بنالو، مگر اس کو مقامی ماحول کے مطابق بنانے میں کیا حرج ہے۔ اس نئے آرکیٹیکچر کا اس خطے کے منفرد ماحولیاتی، جغرافیائی یا ثقافتی ورثے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ سے روایتی کشمیری فن تعمیر تقریبا غائب ہو گیا ہے۔ ہمارا پرانا گھر، جہاں میرے والد نے آنکھ کھولی، تراشے گئے لکڑی کے ستون، خوبصورت دروازوں کے فریم، وسیع و عریض برآمدوں اور پتھر کے وسیع نقش و نگار کا ایک مرقع تھا۔ گھر کا ہر عنصر قدرتی دنیا اور کشمیری زندگی کی اقدار، جمالیات اور فعالیت سے گہرے تعلق کی عکاسی کرتا تھا۔ جب میں نے اس گھر کو غور سے دیکھا، تو پتہ چلا کہ یہ صرف ایک عمارت نہیں ہے بلکہ یہ اس خطے کی تعمیراتی وراثت کا ایک زندہ ثبوت ہے۔

موسمی حالات کو سمجھتے ہوئے روایتی کشمیری فن تعمیر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ چونکہ لکڑی مقامی طور پر وافر مقدار میں میسر ہوتی تھی، اسی لیے گھر اس سے ہی تعمیر کیے جاتے تھے اور یہ سردیوں میں کنکریٹ کے برعکس قدرتی طور پر گرم رہتے تھے۔ خاص طور پر دیودار کی لکڑی استعمال ہوتی تھی۔

یہ لکڑی نہ صرف پائیدار ہوتی ہے، بلکہ کیڑے مکوڑوں کو بھی اس میں جگہ بنانے میں دقت ہوتی ہے۔ گھروں کا ڈیزائن بھی ایسا ہوتا تھا کہ جو قدرتی ہوا اور روشنی کی گزر گاہ فراہم کرتا تھا۔ میرے والد بتاتے ہیں کہ ہوا کے گزرنے کا ایک ایسا نظام ہوتا تھا کہ گرمیوں میں شاید ہی کسی گھر میں پنکھے کی ضرورت پڑتی تھی۔

اسی طرح پرانی عمارتوں کی چھتیں کشمیر برج درخت کی چھال کی تہوں سے بنی ہوئی ہوتی تھیں۔ اس کے اوپر زرخیز مٹی کی تہیں جما کر اس پر پھول وغیرہ اگائے جاتے تھے۔ خوبصورتی اپنی جگہ، مٹی اور درخت کی چھال سردی اور گرمی کو گھر سے دور ہی رکھتے تھے۔ یہ چھتیں اس وقت غائب ہوگئیں، جب لوہے کی سستی گیلوانائزڈ شیٹ مارکیٹ میں آنا شروع ہوگئیں۔ پہلے تو متمول خاندانوں نے روایتی ڈھانچوں کی جگہ کنکریٹ اور شیٹ کی چھتیں ڈالنا شروع کیں، بعد میں یہ فیشن بن گیا۔

پرانے مکانوں میں اندرونی کمروں میں اخروٹ کی لکڑی کا کام ہوتا تھا۔ چونکہ یہ لکڑی نرم ہوتی ہے، اس لیے اس پر نقاشی نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ یہ نقاشی مکین کے جمالیاتی ذوق کی عکاس ہوا کرتی تھی۔

کشمیر کا تعمیراتی ورثہ صرف ایک جمالیاتی حسن ہی نہیں بلکہ ایک زندہ تاریخ کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان عمارتوں کا نقصان ایک پوری ثقافتی شناخت کے زوال کی علامت ہے۔ یہ سوالات بھی اب اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ نئی عمارتیں موسم، زلزلوں اور قدرتی آفات کا بار اٹھا سکتی ہیں۔ 2005ء میں آئے زلزلے نے تو ثابت کر دیا کہ ان میں وہ سکت نہں ہے۔

کشمیر میں انجینئرنگ کے شعبے میں بھی زیادہ تر افراد کنکریٹ کے ڈیزائن کو ہی سیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی روایتی فن تعمیر کی تعلیم اور اختراع کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جار ہے۔ تیزی سے آبادی میں اضافہ اور جدیدیت کے گمراہ کن تصور نے روایتی سائنس وعلم پر گرد کی تہیں جما دی ہیں۔

کشمیر کا روایتی فن تعمیر نہ صرف ماضی سے رشتہ جوڑتا تھا، بلکہ زلزلے کے خلاف ایک بڑا ہتھیار تھا۔ زلزے کے وقت دیکھا گیا ہے کہ جدید کنکریٹ کا مکان ڈھ جاتا ہے، مگر صدیوں پرانے مکان پر آنچ بھی نہیں آتی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ زلزلے کے جھٹکے کے بعد وہ واپس اپنی پوزیشن میں آتا ہے۔ جبکہ کنکریٹ کا اسٹریکچر واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے۔

کشمیر کی اس تعمیراتی وراثت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم تعمیر کے بارے میں اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستقبل کی تعمیرات پائیدار اور خطے کے منفرد ثقافت اور ماحول کی عکاس ہو۔

نوٹ :تیسری جنگ اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

================

فرحانہ لطیف
کالم