اردو خبر دنیا

جرمنی میں بے گھر افراد میں شامل خواتین مردوں کی نسبت تشدد اور بد سلوکی کا زیادہ شکار بنتی ہیں : رپورٹ

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بے گھر افراد میں شامل خواتین مردوں کی نسبت تشدد اور بد سلوکی کا زیادہ شکار بنتی ہیں۔ حتٰی کہ انہیں سرکاری اداروں اور پناہ گزین مراکز میں بھی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جرمنی میں بے گھر افراد کی مجموعی تعداد کا پانچواں حصہ 25 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق ان افراد میں شامل خواتین میں سے زیادہ تر کی عمریں بھی 25 سال سے کم ہیں۔

بےگھر افراد کی مدد کے لیے قائم کردہ فیڈرل ورکنگ گروپ (بی اے جی ڈبلیو) کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں ان افراد کو بے گھر قرار دیا گیا ہے جن کی کوئی جائیداد نہیں اور نہ ہی انہوں نے کرائے کے گھر میں رہائش کے لیے کوئی معاہدہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جن افراد کے پاس کرائے پر رہنے کے لیے گھر نہیں ہوتا وہ عموماﹰ سڑکوں پر نہیں بلکہ اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے ساتھ رہتے ہیں، جسے ’’کاؤچ ہاپنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 25 سال یا اس سے زائد عمر کی بے گھر خواتین کی شرح 23 فیصد سے کم ہے۔ تاہم 18 سال سے کم عمر بے گھر افراد میں 38 فیصد لڑکیاں شامل ہیں جبکہ 18 سے 20 سال کی عمر تک کے بے گھر افراد میں لڑکیوں کی شرح 40 فیصد ہے۔

رپورٹ کے ایک مصنف مارٹن کوسیٹزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نوجوان لڑکیاں خودمختاری کے حصول کی خاطر کم عمری میں اپنے والدین کا گھر چھوڑ دیتی ہیں۔ تاہم انہیں لڑکوں کی نسبت تشدد اور بد سلوکی کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے باعث وہ مدد طلب کرنے کے لیے جلد ہی فلاحی اداروں کا رخ کرلیتی ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نوجوان اکثر دوستوں یا جان پہچان والوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں میں 43 فیصد اور 18 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں سے 47 فیصد اسی طرز پر زندگی گزار رہے ہیں۔

تاہم ماہرین کی رائے میں یہ بالخصوص لڑکیوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہے۔ برلن میں سماجی کارکن اور بے گھر بچوں کے لیے کام کرنے والی ایک خیراتی تنظیم کے بورڈ کے رکن مارکوس کؤٹر نے بتایا کہ پہلے انہیں رہنے کے لیے کسی جگہ کی پیشکش کی جاتی ہے لیکن کبھی نہ کبھی انہیں اس جگہ کا کرایہ دینا ہی پڑتا ہے۔

تاہم مارکوس کے بقول اگر یہ لڑکیاں کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتی ہوں، تو انہیں دیگر طریقوں سے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ منشیات فروش اور مافیا ان کی اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حتٰی کہ سرکاری اداروں اور پناہ گزین مراکز میں بھی انہیں استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال ان لڑکیوں کو سڑکوں پر آ جانے پر مجبور کر دیتی ہے، جو ان کے لیے شدید نقصان دہ ہوتا ہے۔

امداد کے حصول میں درپیش مشکلات
جرمن قانون کے تحت بچوں اور نوجوانوں کو رہنے کے لیے کسی محفوظ جگہ کی فراہمی کی ذمہ داری والدین اور متعلقہ فلاحی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم اس نوعیت کی بے شمار سہولیات موجود ہونے کے باوجود وفاقی وزارت محنت اور سماجی امور کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے 264,000 بے گھر انسانوں میں سے تقریباً 38,000 کی عمر 14 سے 27 سال کے درمیان ہے۔

مارٹن کوسیٹزا کے مطابق اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، ’’یہ زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جب عموماﹰﹰ نوجوان اپنے والدین سے علیحدہ تو ہورہے ہوتے ہیں لیکن نہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی مالی طور پر خود کفیل۔‘‘

دراصل مسئلہ ان فلاحی اداروں کے نظام میں ہے۔ جرمنی میں نوجوانوں کو 18 سال کی عمر کے بعد بھی فلاحی اداروں سے معاونت لینے کا حق حاصل ہے لیکن اکثر یہ ادارے 18 سال کی عمر کے بعد ان افراد کی مدد کرنا بند کردیتے ہیں۔

مارٹن کوسیٹزا کے مطابق بہت سے نوجوان جب ان شیلٹر ہومز سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ دوستوں یا جان پہچان والوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا اس سے بھی سنگین صورتحال میں سڑکوں پر آسکتے ہیں۔

نوجوانوں کے لیے متبادل فلاحی اداروں جیسے بے روزگار افراد کی معاونت کے لیے قائم ’’جاب سینٹر‘‘ سے مدد حاصل کرنا ممکن ہے لیکن یہ کافی پیچیدہ ثابت ہوتا ہے۔ مختلف ادارے اکثر ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان ان اداروں کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور اکثر انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ مدد دستیاب ہے بھی یا نہیں۔

مارٹن کوسیٹزا کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے اور نظام کو آسان بنایا جانا چاہیے۔

سرکاری اداروں کو دباؤ کا سامنا
جاب سنٹر کی مالی مدد، ’’بُرگر گیلڈ‘‘، نوجوانوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ اس ادارے کی تمام تر توجہ نوجوانوں کو ملازمت کے حصول میں مدد فراہم کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مدد حاصل کرنے والے افراد کو ادارے کی شرائط پورا نہ کرنے پر امداد معطل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

کؤٹر کے مطابق، حکومتی فلاحی ادارے، جیسے سرکاری اسکول اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے دیگر ادارے، مسائل کی پیچیدگی اور تعداد کے باعث شدید دباؤ میں ہیں۔ وہ ان مسائل سے لاپرواہ نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسائل کا حجم اتنا بڑا ہے کہ وہ اسے مؤثر طریقے سے حل نہیں کر سکتے۔

جرمن حکومت نے رواں برس اپریل کے آخر میں ایک اہم منصوبے کا اعلان کیا، جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا۔ اس منصوبے کا مقصد ملک میں بے خانمانی کو 2030ء تک مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ تاہم ناقدین کے مطابق اس پلان کی تجاویز کافی غیر واضح ہیں۔

کؤٹر کے مطابق حکومت کو سرکاری اسکولوں اور سماجی خدمات کے نظام پر ازسرنو غور کرنا چاہیے، اسکولوں اور نجی امدادی اداروں کے درمیان بہتر اور مؤثر تعاون کو فروغ دینا چاہیے اور مناسب قیمتوں پر گھروں کی شدید کمی کو دور کرنا چاہیے۔