اردو خبر دنیا

تو مملکت سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر سکتی ہے…

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں علاقائی امن ایک ایسی چیز ہے، جس پر وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ حالانکہ امریکہ کی قیادت میں اسرائیل اور فلسطین کے مذاکرات ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے ٹھپ پڑے ہیں۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے منگل کے روز کہا کہ اگر ایسا ایک جامع معاہدہ طے پا جائے، جس میں فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کا درجہ شامل ہو، تو مملکت سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر سکتی ہے۔

شہزادہ فیصل بن فرحان نے ڈاؤوس میں عالمی اقتصادی فورم کے ایک پینل سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی امن میں اسرائیل کا امن بھی شامل ہے، تاہم یہ صرف فلسطینیوں کے امن کے ذریعے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔”

ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا اس صورت میں ایک وسیع سیاسی معاہدے کے حصے کے طور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا، تو انہوں کہا،”یقیناً کر لے گا۔”

شہزادہ فیصل نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے علاقائی امن کو یقینی بنانا ”ایک ایسی چیز ہے، جس پر ہم امریکی انتظامیہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور غزہ کے تناظر میں یہ زیادہ اہم ہے۔”

سعودی اسرائیل مذاکرات میں سرد مہری
اسرائیل متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکا ہے اور اگر تیل ابیب سعودی عرب کے ساتھ بھی معمول کے سفارتی تعلقات کا معاہدہ حاصل کر لے، تو اس کے لیے یہ ایک بڑی سفارتی جیت ہو سکتی ہے اور اس سے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست کے تبدیل ہونے کا بھی امکان ہے۔

گزشتہ برس سعودی عرب اور اسرائیل میں تعلقات کی بحالی کی بات چیت کافی تیزی سے جاری بھی تھی۔ تاہم برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ریاض کے دو ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی حمایت یافتہ منصوبوں کو روک دیا۔

دونوں ذرائع نے روئٹرز کو یہ بھی بتایا کہ سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں امریکی حمایت یافتہ بات چیت میں اب کچھ تاخیر ہو گی۔

مملکت سعودی عرب ان منصوبوں کو اپنے لیے ایک اہم قدم کے طور پر دیکھ رہی ہے، کیونکہ اس کے بدلے میں وہ امریکہ کے ساتھ ایک اہم دفاعی معاہدہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔