اردو خبر خاص

تنہائی کا شکار والدین, ہرسال سات لاکھ سے زائد افراد خود کشی کر لیتے ہیں

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہرسال سات لاکھ سے زائد افراد خود کشی کر لیتے ہیں اور ان کے لاکھوں والدین، جنہیں ’سوئیسائیڈ سروائیور‘ کہا جاتا ہے، اپنے بچوں کو کھو دینے کا صدمہ عمر بھر جھیلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق سال 2019 میں پندرہ سے انتیس سال کے نوجوانوں کی اموات کی چوتھی بڑی وجہ خو دکشی رہی۔ کورونا وباء کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے مرتب ہونے والے ذہنی امراض نوجوانوں میں اس رجحان کی وجہ بنے۔

امریکہ، جنوبی افریقہ، فن لینڈ اور گیانا ان ممالک میں شامل ہیں جہاں نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔

فرانس میں یونیسیف کی سربراہ ایڈلین ہازان کے مطابق ملک میں 1.6 ملین بچے اور نوجوان نفسیاتی امراض کا شکار ہیں، جن میں سے ساڑھے سات لاکھ سے ساڑھے آٹھ لاکھ کو مناسب علاج مل رہا ہے۔

والدین میں احساس جرم
ستاون سالہ میری نویل کولیئرے دو سال گزر جانے کے باوجود بیٹے کی خو دکشی کے صدمے سے نکل نہیں پائی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’آپ کبھی خود کو اپنے بچے کی موت کے لیے تیار نہیں کرسکتے لیکن جب ایسا ہوتا ہے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کیوں ہوا اور مجھے اس کا علم کیوں نہیں ہوسکا۔‘

ان کا بیٹا چوبیس سالہ باستیاں پائلٹ بننا چاہتا تھا، مگر امتحان میں ناکامی کے بعد شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھا۔ باستیاں کی والدہ اور دوست تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ہمیشہ خوش نظر آنے والا یہ نوجوان خودکشی کرسکتا ہے۔

اب کولیئرے کی زندگی کا مقصد ایسے افراد کے دکھ اور تکلیف کو سامنے لانا ہے جو اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد جذباتی طور پر شدید متاثر ہیں۔

بیلجیم میں مقیم فبریس اور ہیلین دی کارن کی بیٹی، جو سیاسیات کی طالبہ تھی، نے 2021 میں خودکشی کر لی۔ وہ اس واقعے کو ’زلزلہ‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ا س سانحے کے بعد انہیں اپنی زندگی کے بارے میں نئے سرے سے غور کرنا پڑا۔

ماہر نفسیات کرسٹوفر فورے ایسے والدین کے بارے میں کہتے ہیں کہ اکثر والدین ایسے کسی دکھ کے بعد تنہا، احساس جرم میں مبتلا اور اس سوال کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟

تنہائی کا شکار والدین
خود کشی پر بات کرنے کو سماجی طور پر ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ لوگوں میں ایک خوف کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشی کرنے والوں کے عزیز و اقارب کو منفی سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کیولیئرے بتاتی ہیں کہ بیٹے کی میت کی تلاش میں بھی ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ’بعض اوقات دوسرے والدین بھی خوف کے باعث آپ سے اجتناب کرتے ہیں۔‘ جو کہ اس صورتحال کو مزید مشکل بنادیتا ہے۔

سہولیات کی کمی
خود کشی دنیا کے 20 ممالک میں قانوناً جرم ہے۔ آئرلینڈ نے 1993 میں خود کشی کو جرم کی فہرست سے نکال دیا تھا۔ جن ممالک میں روک تھام کے منصوبے بنائے گئے ہیں، وہاں بھی مذہبی عقائد اور ثقافتی رویے اس پر بات کرنا مشکل بنادیتے ہیں۔

ایک فرانسیسی خیراتی ادارے سے وابستہ میری تورنیگوں کے مطابق، فرانس میں بھی دیگر ممالک کی طرح نفسیاتی مدد کے کم آپشنز دستیاب ہیں۔ رضاکار گروہوں کو بھی ان افراد کی مدد کی مناسب تربیت نہیں جو اپنے پیاروں کی خود کشی کے بعد کرب میں مبتلا ہوتے ہیں۔

بیلجیم کے دی کارنس نے اپنی بیٹی لو کی خود کشی کے بعد نفسیاتی ماہرین سے مدد طلب کی، لیکن وہ مدد کرنے سے قاصر تھے۔ بالآخر اُنہیں بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں خود کشی کی روک تھام کے مرکز کے نفسیاتی ماہر تک رسائی ملی، جنہیں ایسے والدین کی مدد کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔

زندگی کو بہتر بنانے کے کوشش
بیٹے کی موت کے صدمے سے دوچار کیولیئرے جب مکمل طور پر ہمت ہارنے لگی تھیں، تو انہیں لا پوائنٹ روز (دی پنک ڈاٹ) نامی ایک سپورٹ گروپ سے مدد ملی۔ یہ گروپ فرانس کے جنوبی علاقے کے ان والدین کی مدد کرتا ہے جو اپنے بچوں کو کھو چکے ہیں۔

گروپ کی بانی، 55 سالہ نتھالی پولی کی بیٹی کارلا مری بھی آٹھ سال کی عمر میں لیوکیمیا سے انتقال کرگئی تھی۔

پولی، مارسے کے شمال میں واقع اپنے گھر کی چھت پر ‘فیملی ڈے‘ کے دوران سامعین سے مخاطب تھیں، ’پہلے سال آپ کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ آپ کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتے۔ اکثر دوسرا سال اور بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ لوگ کم فہم ہوتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے اندر خود کو سنبھالنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔‘

پولی نے کہا کہ زندگی ہر حال میں چلتی رہتی ہے اور انہوں نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی قدر کو بڑھانے پر زور دیا۔ ان کی اس کوشش کا مقصد اپنے آپ کو جذباتی طور پر بہتر بنانا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خود کو خوش رکھنے کے لیے اپنے آپ کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھیں، مثلاً باغبانی، پینٹنگ، چہل قدمی وغیرہ۔

پینٹنگ کی ایک کلاس کے دوران، غمزدہ والدین اپنے دکھ درد کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ البتہ کچھ والدین بات کرنے سے گریز کرتے ہیں، انہیں خوف ہوتا ہے کہ یہ ان کے زخموں کو دوبارہ کھول سکتا ہے۔ فبریس دی کارن کہتے ہیں کہ بات کرنا تسکین دہ ہوتا ہے، لہٰذا جو دوست بات کرتے ہیں ان کی بات سننا واقعی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

کیولیئرے کہتی ہیں کہ مرنے والوں کے بارے میں بات کرنا خوفناک نہیں ہونا چاہئے۔

ہیلین دی کارن کہتی ہیں کہ بیٹی لو کے بارے میں بات کرنے کا مقصد ان درناک یادوں کو دوہرانا نہیں ہوتا۔ ہم اس بارے میں بھی بات کرتے کہ ہم کیسے اپنی زندگی کو دوبارہ تعمیر کرسکتے ہیں، اور خود کشی کی روک تھام کیسے اب ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ بن گیا ہے۔ وہ اور ان کے شوہر فرانسیسی ایمرجنسی ہیلپ لائن کے بارے میں آگہی فراہم کر رہے ہیں، جو خود کشی کے خیالات رکھنے والوں کی مدد کے لیے ہے۔

کیولیئرے خود کشی کے حوالے سے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ تک آگہی پہنچانا چاہتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ دوسرے نوجوانوں کو اس ناقابل تلافی عمل سے روک سکیں جو ان کے بیٹے باستیاں سے سرزد ہو گیا تھا۔