اردو خبر دنیا

ترک صدر رجب طیب ایردوآن حریف ہمسایہ ملک یونان کے تاریخی دورے پر

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حریف ہمسایہ ملک یونان کے ایک تاریخی دورے کے دوران روایتی طور پر بہت کشیدہ تعلقات والے ان دونوں ممالک کے مابین باہمی روابط میں ایک نئے دور کے آغاز پر اتفاق ہو گیا۔

ترک سربراہ مملکت کے اس دورے کے دوران انقرہ اور ایتھنز کے مابین جمعرات سات دسمبر کے روز ایک ایسے روڈ میپ پر بھی مفاہمت ہو گئی، جس کے تحت یہ دونوں مل کر باہمی تعلقات کو نئے سرے سے فروغ دیں گے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ ترکی اور یونان جغرافیائی طور پر ایک دوسرے کے ہمسائے تو ہیں ہی، لیکن یہ آپس میں روایتی حریف بھی ہیں تاہم مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک کے طور پر یہ دونوں ایک دوسرے کے اتحادی بھی ہیں۔

صدر ایردوآن کے دورہ یونان کے دوران آج ان دونوں مملک نے باہمی شراکت داری کو آگے بڑھانے، دوطرفہ رابطوں کے ذرائع کو کھلا رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کو مزید فروغ دینے پر بھی اتفاق کر لیا۔

صدر ایردوآن کی یونانی وزیر اعظم سے ملاقات
ایتھنز میں ترک صدر نے یونانی وزیر اعظم کیریاکوس مٹسوٹاکس کے ساتھ آج جو ملاقات کی، وہ توقعات سے زیادہ دیر تک جاری رہی اور اس کے بعد رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ ترکی اور یونان کے مابین کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں، جسے حل نہ کیا جا سکے۔

یونانی وزیر اعظم نے صدر ایردوآن کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا، ”جغرافیہ اور تاریخ یہ طے کر چکے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہی رہیں گے۔ لیکن میں اپنے کندھوں پر یہ تاریخی ذمہ داری بھی محسوس کرتا ہوں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح چلیں، جیسے ان کے درمیان مشترکہ سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔‘‘

اس دورے کے دوران اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ ترک یونانی تجارت کا سالانہ حجم بڑھا کر 10 بلین ڈالر تک کر دیا جائے گا۔ صدر ایردوآن کے الفاظ میں، ”ہمارے دونوں ممالک آئندہ ہونے والی ان اعلیٰ سطحی ملاقاتوں سے بھی بہت فائدہ اٹھا سکیں گے، جو ہر سال ہوا کریں گی۔‘‘

تعلقات میں نئی بہتری کا آغاز کب سے؟
ترکی اور یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے مابین عشروں سے بہت کشیدہ چلے آ رہے روابط میں حال ہی میں ایک نئی بہتری کا واضح امکان اس وقت دیکھنے میں آیا جب اسی سال فروری میں ترکی میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد یونان کی جانب سے فوری طور پر وہاں امداد بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

ایتھنز اور انقرہ کے مابین کئی دہائیوں سے جن امور پر مسلسل اختلافات رہے ہیں، ان میں جغرافیائی تنازعہ، بحیرہ ایجیئن میں توانائی کے قدرتی وسائل تک رسائی سے متعلق اختلاف رائے اور نسلی طور پر منقسم جزیرے قبرص سے متعلق متضاد سیاست سب سے نمایاں ہیں۔

اس سے قبل یہی دونوں ممالک 1990 کی دہائی میں تو بظاہر ایک جنگ کے بہت قریب بھی پہنچ گئے تھے۔ اب لیکن مشترکہ مفاہمت باہمی کشیدگی کی جگہ لیتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔

یونانی خاتون صدر سے ملاقات
ترک صدر نے اپنے دورہ یونان کے دوران میزبان ملک کی خاتون صدر کاترینا ساکیلاروپولو سے بھی ملاقات کی، جو یونانی وزیر اعظم کے ساتھ ایردوآن کی ملاقات سے پہلے ہوئی۔

اس ملاقات میں یونانی خاتون صدر نے کہا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین اختلاقات کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں اس طرح بہت مدد مل سکتی ہے کہ انقرہ اور ایتھنز دونوں ہی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ان کے آپس کے روابط پانی کا ایسا گلاس ہیں، جو آدھا بھرا ہو اور آدھا خالی ہے۔