اردو خبر دنیا

”ترکی کے صدررجب طيب ايردوآن نے کرد باغيوں کے خلاف فتح کا اعلان کر ديا …. انہوں نے کہا، ”ترکی جيت گيا

 

کردستان ورکرز پارٹی کی جانب سے ہتھيار ڈالنے کے بعد اس گروپ نے جمہوری سياست ميں حصہ لينے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ صدر ايردوآن نے اس پيش رفت کو ترکی کی جيت سے تعبير کيا۔

ترکی کے صدررجب طيب ايردوآن نے کرد باغيوں کے خلاف فتح کا اعلان کر ديا ہے۔ انہوں نے کہا، ”ترکی جيت گيا۔ 86 ملين شہری جيت گئے۔ ہميں معلوم ہے کہ ہم کيا کر رہے ہيں۔ کسی کو فکر يا سوال کرنے کی ضرورت نہيں۔ ہم يہ سب ترکی کے ليے کر رہے ہيں، اپنے مستقبل کے ليے۔‘‘

ايردوآن نے انقرہ ميں اپنی پارٹی کے حاميوں سے خطاب ميں يہ سب کہا تاہم وہ PKK کے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی بيان کرنے سے قاصر رہے۔

کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے باغيوں نے عراقی کردستان ميں جمعے کی شب اپنے ہتھيار پھينک ديے۔ يہ ايک علامتی قدم تھا، جو اس تحريک کا مسلح بغاوت سے جمہوریت کی طرف سفر کی شروعات ہے۔

پی کے کے کو 1978ء میں انقرہ یونیورسٹی کے طلباء نے تشکیل دیا تھا، جس کا حتمی مقصد مسلح جدوجہد کے ذریعے کردوں کو آزادی دلانا تھا۔ اس گروپ نے 1984ء میں ہتھیار اٹھائے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تنازعے میں 40,000 سے زیادہ جانیں ضائع ہو چکی ہيں۔

یہ گروپ ترکی، یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ میں ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر کالعدم ہے۔

کرد باغیوں کی جانب سے ترک ریاست کے خلاف دہائیوں سے جاری مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان دو ماہ قبل کيا گيا تھا۔ پھر جمعے کو عراقی کردستان میں PKK کے تیس جنگجوؤں نے اپنے ہتھیاروں کو ایک علامتی تقریب میں تباہ کر دیا۔

تقریب کے بعد اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے PKK کی خاتون کمانڈر بیس ہوزات نے کہا کہ اس عمل کو کامیاب کرنے کے لیے، اوکلان کو رہا کرنا ضروری ہے، جو 1999 ء سے قید تنہائی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

پی کے کے کے عسکریت پسندوں نے ترکی میں قانونی اصلاحات کی ضرورت پر زور ديا ہے تاکہ وہ وطن واپس جا سکیں اور سیاست میں حصہ لیں۔

ترکی کی کرد نواز ڈی ای ایم پارٹی، جس نے اوکلان اور انقرہ کے درمیان رابطوں کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اس تقریب کو ‘کرد مسئلے کے لیے ایک نئے دور‘ کے آغاز کے طور پر سراہا۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے جمعے کی تقریب کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اسے امید ہے کہ PKK کی تحلیل ایک جامع سیاسی عمل کو جنم دے گی۔

=============
عاصم سلیم اے پی، روئٹرز کے ساتھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *