اردو خبر قومی

بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ انتظامیہ جج بن کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ ملزم مجرم ہے, غیر قانونی اقدامات میں ملوث افسران کو سزا دی جائے گی

عدالت نے کہا کہ انتظامیہ جج بن کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ ملزم مجرم ہے اس لیے سزا دینے کے لیے اس کا مکان منہدم کر دیا جائے۔ بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں میں بلڈوزر کلچر عام ہے، اور انہدامی کارروائی معمول کی بات ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ محض اس شک کی بنیاد پر کہ کسی شہری نے کوئی جرم کیا ہے، اس کی جائیدادوں کو مناسب قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر منہدم کرنا، قانون کی حکمرانی کے منافی ہے۔

عدالت نے حکومتوں کو حکم جاری کیا ہے کہ اس طرح کے غیر قانونی اقدامات میں ملوث افسران کو سزا بھی دی جائے گی۔ عدالت عظمٰی نے اس حوالے سے کچھ ہدایات بھی جاری کیں جن پر کسی بھی مکان یا عمارت کو منہدم کرنے سے پہلے عمل کرنا لازمی ہو گا۔

واضح رہے کہ بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں گزشتہ کچھ برسوں سے یہ چلن ایک عام بات ہے کہ جیسے ہی کسی شخص کے بارے میں جرم کرنے کی کوئی خبر آتی ہیں، تو مقامی حکام پہلی فرصت میں اس کے مکان کو نشانہ بناتے ہیں اور جائیدادیں منہدم کر دی جاتی ہیں۔

بلڈوزر کلچر کے تحت سب سے زیادہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جن کے بڑی تعداد میں مکانات، رہائش گاہیں، کاروباری مراکز اور دکانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس چلن کو ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سب سے پہلے اپنایا اور خوب عمل کیا، جس کے بعد ان کی جماعت کے دیگر وزرا اعلی نے بھی اسے عام کر دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کیا کہا؟
بھارتی سپریم کورٹ ان درخواستوں پر سماعت کر رہی تھی، جس میں بعض ریاستی حکومتوں کے اس طرز عمل کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کے تحت مبینہ طور پر جرم میں ملوث ہونے کے الزام میں حکومتیں بطور سزا ملزم کی جائیدادوں کو منہدم کر دیتی تھیں۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس بی آر گاوائی اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا، “ایگزیکٹیو جج نہیں بن سکتا اور یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ایک شخص مجرم ہے، اس لیے اس کی رہائش گاہ، تجارتی مراکز یا جائیدادوں کو منہدم کر کے اسے سزا دی جاے۔ انتظامیہ کا ایسا کوئی بھی عمل اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔”

عدالت نے کہا، “ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ایگزیکٹو کسی شہری کے گھر کو صرف اس بنیاد پر گرا دیتا ہے کہ اس پر جرم کا الزام ہے، تو اس کا یہ فعل قانون کی حکمرانی کے اصولوں کے خلاف ہے۔”

بینچ نے کہا، “ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں جو بھی سرکاری اہلکار ملوث ہوں، انہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے جیسے اقدامات کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے، تاکہ ان کا احتساب ہو سکے۔”

عدالت نے مزید کہا، “اگر صرف ایک شخص پر جرم کا الزام ہے، تو حکام کو پورے خاندان یا چند خاندانوں کے سربراہوں سے سر سے چھت ہٹانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟”

عدالت نے اپنے سخت فیصلے میں کہا کہ “افسران کو بخشا نہیں جا سکتا اگر وہ اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔” اس نے اس سلسلے میں رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کو توہین عدالت جیسے مقدمات کا سامنا کرنے کی تنبیہ کی اور کہا کہ “اگر کوئی بھی افسر خلاف ورزی کا مرتکب پایا جاتا ہے، تو ان کو معاوضہ کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا اور انہیں اپنی تنخواہ سے ہرجانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔”

عدالت نے ملزمان یا قصوروار قرار دیے گئے افراد سمیت ان سبھی کے لیے دستیاب تحفظ کو تقویت دیتے ہوئے کہا، “منصفانہ ٹرائل کے بغیر کسی کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔”

سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اس طرح کے من مانی اقدامات، خاص طور پر عدالتی حکم کی عدم موجودگی میں، قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ “جب حکام قدرتی انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہوں اور مناسب اصول کی پاسداری کیے بغیر بلڈوزر سے عمارت کو منہدم کر رہے ہوں، تو یہ حیران کن نظارہ ایک ایسی غیر قانونی صورتحال کی یاد دلاتا ہے، جہاں ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’ کی کہاوت درست نظر آتی ہے۔”

عدالت کا مزید کہنا تھا، “ہمارے آئین میں، جو قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر قائم ہے، اس طرح کے امتیازی اور من مانی اقدامات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انتظامیہ کے ہاتھوں ہونے والی اس طرح کی زیادتیوں کو قانون کے سخت ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا۔ ہماری آئینی اقدار طاقت کے اس طرح کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی اور عدالتیں بھی اس طرح کی غلط مہم جوئی کو برداشت نہیں کر سکتیں۔”

بنچ نے مزید کہا کہ “اگر ایگزیکٹو جج کے طور پر کام کرتا ہے اور شہری کو اس بنیاد پر مسمار کرنے کی سزا دیتا ہے کہ وہ ایک ملزم ہے، تو یہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول کی صریح خلاف ورزی ہے۔”

واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے اسی معاملے کی سماعت کے آغاز میں اپنے عبوری حکم میں حکام سے کہا تھا کہ وہ اگلے نوٹس تک مسمار کرنے کی تمام کارروائیاں روک دیں۔ اس درخواست اب حتمی فیصلہ سامنے آیا ہے۔

=============

صلاح الدین زین