اردو خبر خاص

بونگ اور بکرے کی مچھلی

Sanaullah Khan Ahsan

karachi, pakistan
==============
بونگ اور بکرے کی مچھلی
جناب من۔ بونگ بکرے گائے بھینس کے چاروں پاؤں کی پنڈلی سے لگا گوشت ہوتا ہے جس کو عرف عام میں مچھلی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی شکل مچھلی جیسی ہوتی ہے۔ انسان کے بازو میں بھی جو شولڈر سے نیچے مسلز ہوتے ہیں جن کو باڈی بلڈر پھلا پھلا کر اور اکڑا اکڑا کر گولے بنا کر دکھاتے ہیں یہ بھی عرف عام میں مچھلیاں ہی کہلاتے ہیں آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ پہلوان کے کسرتی بازووں کی مچھلیاں پھڑک رہی تھیں۔
انگلش میں اسے calf muscle meat یا Shank کہا جاتا ہے۔
یہ عضلاتی گوشت جسم میں ہر اس جگہ ہوتا ہے جہاں کام کاج کرنے چلنے پھرنے یا مشقت بوجھ اٹھانے سے سب سے زیادہ زور اور کھنچاؤ پڑتا ہو۔ یہ بجائے لمبے ریشے کے گٹھی ہوئ گول بوٹی ہوتی ہے جس پر چربی بہت کم ہوتی ہے۔ کیونکہ عضلے میں خون کا دوران زیادہ ہوتا ہے اس لئے بونگ کا گوشت زیادہ گہری رنگت اور جسم کے دوسرے گوشت کے مقابلے نمکین اور لذیذ ہوتا ہے۔ یہ جب گل جاتا ہے تو اس کے لمبے یا موٹے ریشے نہیں ہوتے بلکہ یہ بالکل نرم حلوان اور منہ میں گھل جانے والی چکنی بوٹیاں ہوتی ہیں۔ عام طور پر پائے نہاری کے ساتھ بونگ کا گوشت ہی ڈالا جاتا ہے۔
نہاری اور پائے تو بونگ کے بنا لطف ہی نہیں دیتے ۔ بونگ کی خوبی یہ ہے کہ مکمل گل جائے لیکن بوٹی پھر بھی اپنی ساخت برقرار رکھتی ہے اور یہی صفت اسے پائے اور نہاری میں ممتاز بناتی ہے کیونکہ یہ دونوں کھانے خوب اچھی طرح پکے ہوں تبھی مزا آتا ہے۔ دیگر گوشت تو اسمیں بکھر کر حسن خراب کردیگا۔
اسی طرح دلی کا ادلے کا قورمہ بڑا مشہور ہے۔ دلی والے بونگ کو ادلہ کہتے ہیں اور یہ غالبا” عضلے کی بگڑی ہوئ شکل ہے کیونکہ بونگ دراصل عضلہ ہی ہوتا ہے۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں دلی والے ادلے کا تار دار قورمہ تناول فرما کر آم یا خربوزے کھاتے اور پھر دوتین گھنٹے کا لمبا قیلولہ کیا کرتے تھے۔ ھائے کیا فارغ البالی کا دور تھا۔ اب تو بیف بونگ سولہ سو روپے کلو اور خربوزے دوسو روپے کلو ملتے ہیں ورنہ خربوزہ تو کبھی سیروں کے حساب سے نہیں بلکہ ٹوکروں اور بوریوں کے حساب ملا کرتا تھا۔
حضورﷺ کو بونگ کا گوشت پسند تھا۔ آپﷺ نے اس کو دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا (یعنی چھری وغیرہ سے نہیں کاٹا) دانتوں سے کاٹ کر کھانے کی ترغیب بھی حضورﷺ نے فرمائی ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ گوشت کو دانتوں سے کاٹ کر کھایا کرو کہ اس سے ہضم بھی خوب ہوتا ہے اور بدن کو زیادہ موافق پڑتا ہے۔
قربان جائیے نبی کریم ﷺ پر کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں ہڈی سے دانتوں سے گوشت کھاتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی اور وہ ہڈی حضور ﷺ کوپیش کردیتی تو آپ ﷺ اپنا دہن مبارک اسی جگہ رکھتے جس جگہ میں نے رکھا تھا ۔
گجرانوالے اور لاہور وغیرہ میں بکرے کی مچھلیوں کا دیسی گھی میں بنا سالن بھی ملتا ہے جو عام گوشت کے مقابلے دگنی قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ یہ بکرے کی مچھلی کا سالن کہلاتا ہے اور نئے سننے والے کنفیوژڈ ہوجاتے ہیں کہ یہ بکرے کی مچھلی کیا ہوتی ہے۔ گجرانوالہ میں حاجی عبد الغنی کا بکرے کی مچھلی کا سالن جو کالی مرچ اور دیسی گھی میں بنایا جاتا ہے بہت مشہور ہے جو ناشتے میں لال آٹے کی روٹی کے ساتھ لوگ کھاتے ہیں، واقعی بہت لذیذ اور لاجواب ہوتا ہے۔چٹورے دور دور سے بطور خاص کھانے آتے ہیں۔
انڈیا کے اردو اسپیکنگ اور خاص طور پر دلی والے جب بھی پائے بناتے ہیں ان میں ایک دو کلو بونگ ضرور ڈالتے ہیں۔
جس نے ایک بار بونگ کا گوشت چکھ لیا اس کو اس کا چسکا لگ جاتا ہے اور دوسرا کوئ گوشت پسند نہیں آتا۔ یہ سمجھئے کہ جیسے مرغ کی ران کا گوشت سب سے زیادہ مزیدار اور نمکین ہوتا ہے اسی طرح بونگ بھی لذیذ ہوتی ہے۔
#ثنااللہ_خان_احسن
#sanaullahkhanahsan