اردو خبر دنیا

بولیویا-لیتھیم کے بڑے ذخائر کی دریافت

اس لاطینی امریکی ملک میں برسوں کی سیاسی محاذ آرائی کے بعد لیتھیم کے بڑے ذخائر کی دریافت ایک اچھے مسقبل کی امید ہے۔ صدر لوئس آرس کی حکومت لیتھیم کی کے معاہدوں کے لیے روس اور چین کو ترجیح دے رہی ہے۔

بولیویا کے صدر لوئس آرس کے لیے ملک میں خام مال کے حقوق کا ایک بڑا معاہدہ بالکل صحیح وقت پر عمل میں آیا ہے۔ یہ معاہدہ واقعی متاثر کن ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے بولیویا کے جاری اقتصادی بحران کو درمیانی مدت میں حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق روس کا یورینیم ون گروپ اس جنوبی امریکی ملک میں لیتھیم کی پیداوار کے ایک پائلٹ پراجیکٹ میں تقریباً 450 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ بولیویا میں 23 ملین ٹن لیتھیم موجود ہو سکتی ہے۔ اس قیمتی دھات کی اتنی بڑی مقدار کے ساتھ بولیویا دنیا میں لیتھیم کے سب سے بڑے ذخائر والا ملک بن جائے گا۔ اگر بیٹریاں بنانے میں استعمال ہونے والی اس دھات کی اہمیت پر غور کیا جائے تو یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔

پوٹوسی پائلٹ پراجیکٹ
بولیویا کے لیے یہ معاہدہ صرف کان کنی کے ایک معاہدے سے زیادہ اہم ہے۔ برسوں کے سیاسی جھگڑوں کے بعد یہ ملک خود کو ایک قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بولیویا کی سرکاری لیتھیم کمپنی YLB کی صدر کارلا کالڈرون نے اس منصوبے کا خاکہ پیش کیا، جو پوٹوسی کے علاقے میں واقع “کولچا کے” نامی گاؤں میں تین مراحل میں انجام دیا جائے گا۔

پہلے مرحلے میں ہر سال 1,000 ٹن، دوسرے مرحلے میں 8,000 ٹن، اور تیسرے مرحلے میں مزید 5,000 ٹن لیتھیم کاربونیٹ پیدا کرنے کا ہدف ہے۔ زیادہ سے زیادہ ماحول دوست پیداوار پر توجہ دی جائے گی۔ بولیویا کا یہ روس کی سرکاری کمپنی روساتوم کی ذیلی کمپنی کے ساتھ دوسرا معاہدہ ہے۔ جون میں معاہدے کے فریقین نے پاستوس گرینڈیس کے علاقے میں ایک لیتھیم کاربونیٹ صنعتی کمپلیکس بنانے پر اتفاق کیا۔

بولیویا کی ترجیح روس اور چین
کولمبیا کی آئسیسی یونیورسٹی میں لاطینی امریکہ اور روس کے تعلقات کے ماہر ولادیمیر روونسکی نے کہا، ”لیتھیم کے لیے مقابلہ سخت ہے۔‘‘ روونسکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومتوں کے لیے موافق اسٹریٹجک اتحاد بنائے جا رہے ہیں۔ بولیویا کی حکومت چینی اور روسی کمپنیوں کو ترجیح دے رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ” تاہم یہ اتحاد قلیل المدت ہیں کیونکہ معاشیات کی منطق کے تحت اقتصادی مفادات کو عارضی وابستگیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔‘‘

چین بھی دنیا کے سب سے بڑے لیتھیم کے ذخائر والے ملک میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب رہا ہے۔ چینی گروپ کنٹیمپریری ایمپریکس ٹیکنالوجی (سی اے ٹی ایل) کی قیادت میں چینی شراکت دار لیتھیم نکالنے کے پلانٹس کی تعمیر میں کل 1.4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم صدر آرس نے روس اور چین سے باہر کے شراکت داروں کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا، ”یورپی یونین، برازیل اور برکس ممالک کے ہمارے دوروں نے واضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ ہمارے لیتھیم میں بہت دلچسپی ہے۔‘‘

صدر آرس جانتے ہیں کہ بولیویا اپنے لیتھیم کے ذخائر نکالنے میں تیزی سے پیش رفت کر سکتے ہیں لیکن وہ بہت تیزی سے آگے بڑھنے کے خلاف خبردار بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں،”یہاں اس پرانی کہاوت کا اطلاق ہوتا ہے کہ ہم آہستہ چلتے ہیں کیونکہ ہم جلدی میں ہیں۔‘‘

جنوبی امریکی اسٹریٹجک خام مال
الیکٹرک گاڑیوں کے لیے بیٹریاں بنانے کے لیے لیتھیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے لیتھیم کاروں کے لیے فاسل فیول سے دور اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی طرف تبدیلی کے لیے تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ پانچ سال قبل جرمنی کو بولیویا میں سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا ملک سمجھا جاتا تھا۔ برلن اور لاپاز کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ لیتھیم کی تجارت کے لیے ایک ابتدائی اشارہ سمجھا جاتا تھا اور جرمنی اور اس کی اہم کار مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو اس سے بہت سی امیدیں تھیں۔

لیکن پھر بولیویا میں اندرونی سیاسی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ مشترکہ منصوبہ ایک سیاسی تقسیم پر مبنی انتخابی مہم کا مسئلہ بن گیا اور اس دوران جرمنوں سے بھی کچھ غلطیاں ہوں، اس کے بعد یہ منصوبہ ختم ہو چکا ہے اور جرمنی فی الحال ارجنٹائن اور چلی کی طرف دیکھ رہا ہے، جن میں لیتھیم کے بڑے ذخائر ہیں۔