اردو خبر دنیا

بنگلہ دیش : اسلامی جماعتوں کے لیے ایک نیا موقع؟, اسلام پسندوں کے مطالبات

شیخ حسینہ کے اقتدار چھوڑنے اور ملک سے فرار ہو جانے نے بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے، جسے اسلامی دھڑے اپنے اثر و رسوخ اضافے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے اپنی معزولی اور ملک چھوڑنے سے کچھ روز قبل ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جماعت اسلامی (جے آئی)، پر پابندی عائد کی تھی۔ شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ اس بات پر اصرار کرتی رہی ہے کہ جماعتِ اسلامی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔ حسینہ واجد کے 15 سالہ طویل دورِ اقتدار میں جماعتِ اسلامی کے کئی ممبران اور کارکنان کو جیل بھیجا گیا اور اس کے کئی رہنماؤں کو پھانسی دی گئی۔

حسینہ کی حکومت تحلیل ہونے کے بعد، بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے جماعتِ اسلامی پر عائد پابندی کو ختم کر دیا۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے وزارتِ مذہبی امور کے مشیر خالد حسین نے کہا کہ عبوری انتظامیہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقعفراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں سیاسی رویے اور شہریوں کے ووٹنگ کے حقوق وقت کے ساتھ کمزور ہو گئے ہیں اور عبوری حکومت ان حقوق کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہی ہے، جس میں مذہبی جماعتوں کے حقوق بھی حمایت شامل ہیں۔

لیکن بنگلہ دیش کے بین الاقوامی اور اسٹریٹجک مطالعات کے ادارے (BIISS) کے سابق چیئرمین منشی فیض احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ عوامی لیگ کی حکومت کے پاس جماعتِ اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے جائز وجوہات موجود تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جماعتِ اسلامی کی 1971 کی آزادی کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ وابستگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کے پیش نظر، انہیں اس نام کے تحت کام کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ تاہم اگر اس کے رہنما کسی نئے نام کے تحت سیاست میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی بنیادی ذمہ داری نئے انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنا اور ایسی اصلاحات تجویز کرنا ہے جو نئی منتخب حکومت کے تحت نافذ کی جا سکیں۔ البتہ، نئے انتخابات کی تاریخ کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔

اسلامی جماعتوں کے لیے ایک نیا موقع؟
جماعت اسلامی کے قانونی معاملات میں نمائندگی کرنے والے وکیل ششیر منیر کا کہنا ہے کہ جماعتِ اسلامی نے عوامی لیگ کے پچھلے 15 سالوں میں بھی اپنا وجود برقرار رکھا ہے اور مستقبل میں مزید فعال ہو سکتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح جماعتِ اسلامی نے بھی خود کو شہریوں کی توقعات کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا ہے اور سابقہ حکومت کے زوال کو مدنظر رکھتے ہوئے، جماعتِ اسلامی آنے والے انتخابات کے لیے بہتر تیاری کرے گی۔‘‘

اسلامی تحریک بنگلہ دیش کے سینئر رہنما سید محمد مصدق اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شیخ حسینہ حکومت کے دوران ان کی جماعت سمیت دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کو دبایا گیا، لیکن اب عبوری حکومت انہیں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے حمایت فراہم کر رہی ہے۔

وسطی یورپی یونیورسٹی ہنگری میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ فیلو، شفیع محمد مصطفیٰ کے مطابق مذہبی جماعتوں نے اس طلبہ تحریک کی حمایت کی تھی، جس نے شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کی برطرفی میں کردار ادا کیا اور اسی حمایت نے انہیں اصلاحاتی عمل میں ایک کردار دلایا ہے۔

اسلام پسندوں کے مطالبات
انتہائی دائیں بازو کی اسلامی تنظیم حفاظتِ اسلام کے رہنما مولانا مفتی عمون الحق نے تنظیم کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج تقریباً 300 مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جماعت یہ بھی چاہتی ہے کہ عوامی لیگ پر پابندی عائد کی جائے۔

بنگلہ دیش، سیاسی کارٹون بنانے والے اب آزاد محسوس کرتے ہیں

حق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی تک صرف ایک یا دو مقدمات واپس لیے گئے ہیں اور باقی مقدمات کو ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

اسلامی جماعتوں کے ان مطالبات کے بعد 24 اکتوبر کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم بنگلہ دیش چھاترا لیگ (بی سی ایل)، پر پابندی عائد کر دی اور اسے ایک ”دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دیا۔

ڈھاکا یونیورسٹی میں قانون کے شعبے کے سابق پروفیسر رضوان الحق نے بی سی ایل پر پابندی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے سیاسی، قانونی اور آئینی طور پر غلط قرار دیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عبوری حکومت کی جانب سے بی سی ایل پر پابندی کا فیصلہ آمرانہ ہے اور اس میں منصفانہ عمل کی کمی ہے۔

بنگلہ دیش میں بھارت کی سابق ہائی کمشنر وینا سِکری نے کہا، ’’اس حکومت کے قیام کے بعد سے کئی سزا یافتہ دہشت گردوں کو بغیر مناسب قانونی کارروائی کے جیل سے رہا کیا گیا ہے، جو بنگلہ دیش اور اس کے گرد و پیش کے لیے ایک سکیورٹی خطرہ ہیں۔‘‘