برطانیہ نے غزہ میں انسانی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے اقوام متحدہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے فلسیطنی مہاجرین کے لیے ادارے کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں مزید کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ نے آج بدھ 16 اکتوبر کو کہا کہ ان کے ملک نے فرانس اور الجزائر کے ساتھ مل کر غزہ میں انسانی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ شہریوں کی حفاظت ہو اور زندگی بچانے والی امداد کے لیے راستے کھلے ہوں اور اقوام متحدہ کا اجلاس ان مسائل کو حل کرے گا۔
لیمی نے مزید کہا، ”شمالی غزہ میں انسانی صورتحال انتہائی خراب ہے، بنیادی خدمات تک رسائی بدتر ہوتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں میں بمشکل ہی کوئی خوراک وہاں پہنچی ہے۔‘‘
لبنان میں اسرائیلی حملوں میں 21 افراد ہلاک
اسرائیل نے لبنان کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے ہیں جن کے نتیجے میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے علاقوں میں ایک درجن سے زائد جنوبی قصبے بھی شامل ہیں۔
ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں ناباتیہ شہر کے میئر بھی شامل ہیں، جو لبنانی حکام کے مطابق امدادی سرگرمیوں کے لیے تعاون سے متعلق ایک اجلاس میں شریک تھے۔
لبنان کے نگران وزیر اعظم نجیب میقاتی نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ناباتیہ میں امدادی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کے لیے میونسپل کونسل کے اجلاس کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اس حقیقت کی روشنی میں کس طرح کے حل کی امید کی جا سکتی ہے؟
اسرائیلی فوج کی جانب سے منگل کی رات جنوبی قصبے قنا میں کیے گئے حملوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، جہاں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی جانب سے جاری کی جانے والی تصاویر اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں جبکہ دیگر عمارتوں کی بالائی منزلیں منہدم ہو چکی ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حزب اللہ کے کمانڈ سینٹرز اور ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جو بدھ کے روز ہونے والے حملوں میں ناباتیہ کے شہری علاقوں میں موجود تھے۔
اسرائیل نے بیروت کے جنوبی مضافات میں چھ روز کے وقفے کے بعد دوبارہ حملے کیے ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ایک اپارٹمنٹ کی عمارت کے نیچے ہتھیاروں کے گودام کو نشانہ بنایا گیا تاہم اس کا کوئی ثبوت نہیں فراہم کیا گیا۔ حملے سے قبل مقامی رہائشیوں کو جگہ چھوڑ دینے کی تنبیہ کی گئی تھی اور کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
برطانیہ کا اسرائیلی وزراء پر پابندیاں عائد کرنے پر غور
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء ایتامار بین گویر اور بیزالل اسموٹریچ کے خلاف پابندیوں پر غور کر رہی ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا حکومت ان دونوں پر پابندی عائد کرے گی، تو اسٹارمر کا کہنا تھا، ”ہم اس پر غور کر رہے ہیں، کیونکہ مغربی کنارے میں ایسی سرگرمیوں کے علاوہ، جن پر شدید تحفظات ہیں، واضح طور پر قابل نفرت تبصرے کیے جا رہے ہیں۔‘‘
قومی سلامتی کے اسرائیلی وزیرا سموٹریچ اور وزیر خزانہ بین گویر مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کے کھلے حامی ہیں، حالانکہ انہیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
اسموٹریچ کے اس بیان نے عالمی سطح پر غم و غصہ پیدا کر دیا ہے کہ فلسطینی علاقے میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو بھوکا رکھنا جائز ہو گا۔
رواں ہفتے کے اوائل میں سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے انکشاف کیا تھا کہ سابق کنزرویٹو حکومت ‘انتہا پسند‘ سیاستدانوں کے خلاف پابندیوں پر ‘کام‘ کر رہی تھی۔
اسٹارمر کی لیبر پارٹی کی حکومت نے منگل کے روز سات اسرائیلی آبادیوں اور تنظیموں کے خلاف الگ الگ پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل کے اندر حماس کے حملے کے بعد سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد اور فوجی چھاپوں میں تیزی آئی ہے۔
غزہ میں ‘سنگین‘ انسانی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اسٹارمر نے اسرائیل پر بھی زور دیا کہ وہ ’’شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے، اور غزہ میں زیادہ سے زیادہ مقدار میں امداد کی اجازت دے۔‘‘