اردو خبر خاص

اپنی زبان اورتہذیب سے سرشارمردِقلندر…..By- مختار تلہری

Mukhtar Tilhari Saqlaini Bareilly
=================
اپنی زبان اورتہذیب سے سرشارمردِقلندر
جناب مختار تلہری صاحب

()()()()
جب بہار آتی ہے تو خارو خس کے غبار کا طلسم ٹوٹتا ہے، قفس ٹوٹتا ہے تو فضائے چمن میسر ہوتی ہے۔شکر ہے کہ بہار آتی ہے تو گل کے قدردان مل جاتے ہیں پرندوں کو اڑان مل جاتی ہے وہ بھی اس طرح کہ پرندوں کے پر نونچ دئیے گئے ہوں یا بازوؤ ں کا جَس ٹوٹ چکا ہو۔یہی کیفیت روایت کے بعد جدیدیت کی طرف شاعر کا مزاج کا مائل ہونا ایک فطری عمل ہے۔ یہ عمل ہم جوش مجاز ساحر اور اختر شیرانی وغیرہ سے لے کر آج تک دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
ادب کی روایتوں کو توڑ کر تازہ کاریوں میں نیا لہجہ استعمال کرنا ہی شاعر کو مختلف بناتا ہے۔ تازہ کاریوں کا استعمال مختارؔ تلہری صاحب نے اپنی شاعری میں اس طرح کیا ہے کہ یہ اصطلاح بلا خوف و تردید آج کے دور کے ادب کو متعین کرتی ہے کیوں کہ ایسے ارادے بہت مستحکم ہوتے ہیں،جیسا کہ موصوف فرماتے ہیں کہ ؎
ارادے پھر بھی مستحکم بہت ہیں
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
جدیدیت کے راستوں پر چلنے والوں پر تنقید بھی لازمی ہے۔منزل سے بھٹکنے اور بھٹکانے کے الزامات بھی لگتے ہیں لیکن مختارؔ کو اس کا بھی کوئی خوف نہیں،فرماتے ہیں۔ ؎ وہ آئیں ہم سے دلیل مانگیں
جو کہہ رہے ہیں خدا نہیں ہیں
شاعری مشینی عمل نہیں،کیفیت اور احساس کانام ہے،شعر اگر کیفیات اور احساسات میں ڈوبا ہوا نہ ہو تو با ذوق قاری اس سپاٹ پن سے بیزاری محسوس کرتا ہے۔ شعری داخلی آہنگ اگر شدید نہ ہو تو وجدان کی میزان پر کھرا نہیں اترتا،جیساکہ مختارؔ کہتے ہیں کہ ؎ احساس دلاتارہایادوں کاتسلسل
اس گوشہئ تنہائی میں اک بزم سجی ہے
جس کو احساس یہ رہتا ہے نہ کردار گرے
غیرممکن ہے کہ اس قوم کا معیار گرے
محترم جناب مختار تلہری صاحب کاشمارا ستاذالشعرأ میں ہوتاہے ان کے لاتعداد شاگردہندوستان کے علاوہ دنیاکے اُن ممالک

Page-2
سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، آپ ایک مستند،معتبراور بہت عمدہ شاعرہونے کے علاوہ علمِ عروض کے بھی ماہر ہیں،اورانہیں صنفِ سخن پر مکمل عبور حاصل ہے،ان کے ابتک تقریباً دس شعری مجموعے مختلف عنوانات سے زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر اہلِ دانش سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ہندوستان و بیرون ملک کے مشاہیر اہل ِقلم نے جناب مختار تلہری صاحب سے اپنی محبتوں کا اظہار کیا ہے مختار تلہری صاحب کی ادبی خدمات کے اعتراف کے نتیجے میں
اتر پردیش و بہار اردو اکادمی کی جانب سے انہیں ایوارڈ و اعزازات سے بھی نوازا اور مالی اشتراک سے ان کانیاشعری مجموعہ
”اضطرابِ دل“کی اشاعت کااہتمام بھی کیاہے،ان کے فن پر بے شمار مضامین و تبصرے شائع ہونے کے علاوہ انکی شاعری اورشخصیت پر ایک مکمل کتاب بعنوان ”مختار تلہری شخص اور شاعر“ بھی اشاعت پزیر ہوچکی ہے اس کے باوجود مختار تلہری صاحب تاحیات ”بآب توخال و خط چہ حاجت روئے زیبارا” کے مصداق سب سے بے نیاز رہے،
اُردو ادب میں ہم حمد اُس نظم کو کہتے ہیں جس میں ربِ کائنات کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ اسی طرح نعتِ رسولِ پاک ﷺ کی ثنا و توصیف کی ایک ایسی پاکیزہ، نازک اور ارفع شعری شکل ہے جس میں ہر لفظ کو لکھتے ہوئے قلم کو احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔مختارؔ فرماتے ہیں ؎ ذات اطہرہے تری ارفع واعلیٰ تو ہے
میرا خالق، مرا مالک،مرا مولیٰ تو ہے
مختار تلہری کا شمار بھی ایسے ہی حمد و نعت کہنے والے شعراء میں ہوتا ہے جو ”با وضو“ ہوکر حمدکے اشعار میں اپنی عقیدت و ایمان کے گل ہائے معطر حمدیہ اشعار کی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصافِ حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کے گل ہائے معطر سجاتے ہیں۔اُن کے حمدیہ کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے قرآن وحدیث کا گہرا مطالعہ کیا ہے، اِسی لئے تو اُن کے کلام میں قرآن و سنت کے پاکیزہ اُصولوں کے موتی دل و نظرکوآگہیِ خداوندی سے سرفراز کرتے ہیں۔
اسی دینی ماحول کے زیر اثر جو پہلا نعتیہ شعر کہا وہ یہ تھا ؎ ہم بھی ہیں اک آپ کے ادنیٰ غلام
کیجئے ہم پر کرم خیرالانام
آگے چل کر فرماتے ہیں کہ ؎ تیری عطاؤں سے ہے مرے ہاتھ میں قلم
جو کچھ بھی لکھ رہاہوں یہ سب تیرا ہے کرم
صنفِ نعت کیلئے ایک الگ نوعیت کا تنقیدی شعور درکار ہوتا ہے، اس لئے کہ یہ کسی بھی نعتیہ تخلیق سے قبل ان انتقادی زاویوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کا متقاضی ہے جو نعت گوئی کے لئے لازم ہیں۔ ان میں سرور کونین ﷺکی ذاتِ اقدس کی تفہیم کی مقدور بھر کوشش، آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے مستند گوشوں تک رسائی،آپ ﷺکے اقوال و افکار، اوصافِ حمیدہ، کردار طیبہ، پیغامِ

Page-3
ابدی اورتعلیماتِ سرمدی کے مناصب میں جو بجائے خود کسی بھی شہ پارے کی تخلیق سے قبل انتقادی تقاضوں سے مزیّن منزل کی تفہیم ہے اس کے بعد جب کوئی کاوش ذہن سے اتر کر قرطاس کی زینت بن جاتی ہے تو پھر تنقید کی نئی منزل سامنے ہوتی ہے۔
مختارؔکے ہاں نعت کے گلدستوں میں الفاظ پھول کی پتیوں کی مانند مہکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کانعتیہ شعری مجموعہ ”صدائے حرم“ان کے کلام میں سوچ و فکر کی گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔جو ان کے دلی جذبات و احساسات و خیالات کی عکاسی بھی کرتے ہیں اور ان کے فنِ شاعری کے اسلوبِ بیان کے کمالات کو بھی سامنے لاتے ہیں۔
”اضطرابِ دل“ کا خوب صورت اور سراپا انتخاب مجموعے کی صورت میں نظر نواز ہواہے جو اپنی غزلوں کے رنگ و آہنگ، آن بان اور سج دھج کے اعتبار سے جدیداردو غزل میں اپنی مثال آپ ہے۔مجموعہ کاایک خوب صورت شعر کا لُطف لیجئے،آپ کہتے ہیں کہ ؎ وہ جو حالات کی بھٹی میں تپاتا ہے مجھے
کیا عجب ہے کہ بنادے مجھے کندن کی طرح
چاہے کوئی اس بات سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن میرا خیال یہی ہے کہ ایسی دل کھینچ، تازہ کار اور سراپا انتخابِ غزل گنتی کے چند ایک غزل گو شعرا کو چھوڑ کردوسروں کے ہاں مشکل ہی سے ملے گی۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں مختارؔ تلہری کو گنتی کے ان چند ایک شعرا کے سوا باقی تمام غزل گو شعرا سے بڑھائے دے رہا ہوں۔ یقیناًان میں بعض شاعر کسی نہ کسی اعتبار سے مختارؔسے اچھے بھی ہیں مگر غزل کا جو مخصوص تہذیبی مزاج اور لب و لہجے کی جو تہذیبی سطح ہمیں مختارؔکے ہاں ملتی ہے وہ دوسروں کے ہاں کم یاب ہے۔ اس لیے کہ دوسروں کے ہاں اچھی سے اچھی غزل میں بھی بعض اوقات ایسے شعر آ جاتے ہیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں مگر غزلیہ شاعری کے آہنگ اور غزل کے اس تہذیبی مزاج سے لگّا نہیں کھاتے جس کی تربیت ہمیں اردو غزل کی تین سو سالہ روایات کے اندر رہ کر حاصل ہوئی ہے۔مختار ؔ کا تعلق اُس زرخیززمین سے ہے جو شعروادب اور دیگر علوم وفن کا گہوارہ رہی ہے مختارؔتلہری کے وطن اور گھر کا ماحول دینی ادبی وشعری ہونے کے سبب ان کی طبیعت بچپن سے ہی شعروسُخن کی طرف مائل تھی،ابتدائی شعری تربیت اپنے گھر کے اسی علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی اوراسی ماحول میں انہیں غزلیہ شاعری کی روایت اور غزل کے تہذیبی اور لسانی مزاج سے شناسائی کے مواقع میسر آئے۔ بعدمیں یہ شناسائی بڑھتے بڑھتے گہری وابستگی میں تبدیل ہو کر اُن کے اپنے مزاج کا حصہ بن گئی۔
مختارؔتلہری نے اردو شاعری کواپنی فکر سے حیاتِ دوام عطاکردی ہے،ان کی شاعری میں پہاڑایساٹھہراؤ اور دریاجیسا بہاؤ ہے۔مختارؔ کی شعری کا ئنات بسیط اور متنوع ہے۔ وہ اپنے تجربات کو منفرد لہجے میں پیش کرتے ہیں جن میں ایمائیت، مخصوص
پر اسرار فضا کی تشکیل کرتا ہے۔نئی تر اکیب اور نئے استعارے ان کے لب و لہجے کو تازگی بخشتے ہیں۔رمزو ایما کے پیرایہئ میں نئی

Page-4
لفظیات او ر ترکیبات کے سانچے میں ڈھلا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
؎ ہماری سمت سے بے رغبتی نہ کر ورنہ
ترے بغیرقرار آگیا تو کیا ہوگا
ہندی الفاظ کا بر محل استعمال، الفاظ اور محاورے پر ان کی قدرت کا پتا دیتا ہے۔ نہایت رواں بحروں میں شدیدداخلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ان عناصر سے مربوط ہے جن میں اعلیٰ شاعری کے جوہر موجود ہیں۔مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ مختار ؔ کی شاعری خوشبوئے وفا سے معطر ہے۔یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو غزل میں ہر ایک موضوع پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔اس صنف کا کینوس روز بہ روز بڑھتا ہی جارہا ہے چاہے کسی بھی صنف سخن کا شاعر کیوں نہ ہو غزل میں طبع آزمائی ضرور کر لیتا ہے۔غزل میں ہے ہی ایسی مقناطیسی کشش جو سب کواپنی جانب کھینچ کر لاتی ہے۔ان کی شاعری ان کے لاشعور کی گونج ہے اور ٹوٹتے خوابوں کا سلسلہ بھی۔پھول،پتھر، آئینہ، خواب، سایہ، سمندر، ساحل، جگنو،سورج، راستہ، پرچھائیں وہ بنیادی الفاظ ہیں جو ان کی شاعری میں علامت اور استعارے میں ڈھل کر جلوہ بکھیرتے ہیں اورمعنوی امکانات کی لو کو تیز تر کرتے ہیں۔ ”اضطرابِ دل“سے چند انتخاب پیشِ خدمت ہے۔۔۔!!
؎ سورج،چاند،ستارے جگنو،پھول،دھنک آنسو۔انگارے
ایک ترے رنگیں پیکر میں، کتنے ہی منظر پنہاں تھے
ایک پل میں کس قدر یادوں کے جگنو آگئے
رات کیا بھیگی مری آنکھوں میں آنسو آگئے
سورج،ستارہ،چاند،شفق،کیا لکھوں اُسے
یہ سوچ ہی رہاتھا کہ نیند آگئی مجھے
کہہ رہے ہیں راہ کے پتھر تمام
مرگئے کیا شہر کے آزر تمام
وقتِ شب طائر ِافکار نے پر کھول دیئے
کتنے خوابوں نے مرے واسطے گھر کھول دیئے
گگن کی آنکھ کا ٹوٹا ہواستارہ بھی
زمیں کی گود میں گرکر نظر نہیں آیا

Page-5
دکھادیاتھا اسے آئینہ سرِ محفل
پھر اس کے بعد وہ آئینہ گر نہیں آیا
سمندر کی تہہ میں، پہاڑوں کے نیچے
اگرپاسکو تو خزانے بہت ہیں
زندگی کسی کو جیت لیتی ہے، کوئی زندگی کو جیت لیتا ہے۔ کوئی زمانے سے،تو کوئی خود سے شکست کھاتا ہے۔مختارؔ نے اپنے آپ سے شکست نہیں کھائی بلکہ وہ خود کو دریافت کرتے رہے ہیں،کہتے ہیں کہ ؎
چلتے رہئے کچھ تو چلنے کا صلہ مل جائے گا
آج ایسے بیٹھ جانے سے بھی کیا مل جائے گا
شام ڈھلتے ہی مری آنکھوں میں آکر دیکھنا
سات رنگوں میں دیا جلتا ہوا مل جائے گا
اور دریافت کا یہ سلسلہ کبھی خواب اور کبھی سراب میں بدلتا رہا۔
مختارؔتلہری نے غزل کے تہذیبی مزاج اورمعیارکو برقراررکھتے ہوئے ایسی غزل کہنے میں کامیابی حاصل کی جوصوری اور معنوی ہر قسم کی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں سے پاک،شروع سے لے کر آخر تک سراپا انتخاب اور ایک رچے ہوئے تہذیبی شعور واحساس کی دین ہے۔ شگفتگی،جذبات ومحسوسات کو خوش رنگ اور تازہ کار لفظی پیکروں اور تشبیہوں کاپیرہن عطا کرکے انہیں کچھ اس سج دھج کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ بے اختیار داددینے کو جی چاہتا ہے،ملاحظہ فرمائیے مختارؔ نے اپنے تخیل کی سحر طرازی اور نادرہ کاری سے تازہ تر لفظوں خوبصورت تشبیہوں اور اچھوتے لفظی پیکروں کی کیسی چکمک کرتی کہکشاں اپنی غزلوں میں سجائی ہے: ؎ جفا کی دھول نہ اتنی اڑاؤ اے لوگو
نشانِ راہ ِ وفا مٹ گیا تو کیا ہوگا
مسکراہٹ پہ میری وہ جھنجھلاگئے
پنکھڑی گل کی گویا شرر ہوگئی
شجر کا پھینکا ہوا برگِ خشک ہوں یارو
ہوا بھی چھوڑ کے مجھ کو نکل نہ جائے کہیں

Page-6
الفاظ کی ردا میں سبھی کو چھپالیا
عریانیئ خیال سے شرم آگئی مجھے
یہ بھیگی بھیگی سی چہرے کی دو لکیریں ہی
کوئی تو دامن ِ شفقت سے صاف کرجائے
کس قدر احساس کے سورج کی شدت بڑھ گئی
گل رہاہوں آج برفیلی چٹانوں کی طرح
ان اشعار میں،جفاکی دھول،پنکھڑی گل کی گویا شرر،شجر کا پھینکا ہوا برگِ خشک،الفاظ کی ردا، چہرے کی دو لکیریں، احساس کے سورج،گل رہاہوں آج برفیلی چٹانوں کہنا مختارؔ کی ندرتِ خیال اورقوتِ ایجاد کا ایک ایسا نادرنمونہ جس کی مثال شاذونادر ہی مل سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
تمام عروضی کتابوں میں ”عیبِ تنافر“کاتذکرہ کیاگیاہے،جب کسی شعر میں دو ایسے لفظ متصل آجاتے ہیں جن میں پہلے لفظ کا حرفِ آخر وہی ہوتاہے جو دوسرے لفظ کا حرفِ اول ہوتا ہے تو ان دونوں حرفوں کے ساتھ تلفظ میں ایک قسم کاثقل اور ناگواری پیداہوجاتی ہے اسی کانام ”عیب ِتنافر“ہے، تنافر کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک ”تنافرصوتی“ جس میں حروف الگ الگ ہوں لیکن آواز ایک جیسی ہومثلاً ”شخص سے“ناراض زمانہ“ وغیرہ اس کو خفی مانا گیاہے، اور دوسری ”تنافرِ حرفی“جس میں پہلے لفظ کا حرفِ آخر وہی ہوتاہے جو دوسرے لفظ کا حرفِ اول ہوتا ہے۔مثلاً ”کام میں“ ”محبت تیری“ ”افلاک کا“ یہ تنافرحرفی ہے جس کو جلی عیب ماناگیاہے،لہذا اس عیب سے ہر شاعر کو حتٰی الامکان احترام لازم ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس سے کوئی شاعر بچاہی نہیں،مثلاً امیر مینائی کا یہ نعتیہ شعر ملاحظہ کیجئے:-
؎ اس شوق میں کہ آپ کے دامن سے جا ملے
میں چاک کررہا ہوں گریبان یا رسول ﷺ
مینائی کے اس شعر کے مصرعہ ثانی میں لفظ ’چاک‘ کا ک اور لفظ ’کر‘ کا ک اور اس کے بعد ’کر‘ کا ر
اور لفظ ’رہا‘ کا ر کے باہم ملنے سے عیبِ تنافر کی صورت پیدا ہوگئی ہے،۔۔۔۔۔!!
”اضطرابِ دل“کے مطالعہ سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ماشاٗاللہ مختارؔ تلہری صاحب نے ”اضطرابِ دل“ میں ایک جگہ بھی ”تنافر“ نہیں کیا یہ مختارؔ کا علمِ عروض پر مکمل عبور کا بیّن ثبوت ہے جس کے لئے جناب مختار تلہری صاحب مبارکباد کے سزاوار ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!

Page-7
شاعری کوئی خلا میں نہیں پیدا ہوتی۔ اس کاایک تاریخی اور تہذیبی تسلسل بھی ہوتا ہے۔ میں نے مختار ؔ کی شاعری کے اس تاریخی اور تہذیبی پس منظر کو بیان کر نے کی کوشش کی ہے جس نے ان کی غزل کے لیے زمین تیار کرنے کا کام انجام دیا۔ اس زمین میں مختارؔتلہری صاحب نے اپنے فکر و احساس کی کاوشوں اور خون جگر کی تراوشوں سے کیسے کیسے خوش رنگ اور تر و تازہ پھول کھلائے، تھوڑی سی جھلک ان کی بھی دکھا دی اور ساتھ ہی ان کی غزل کے بنیادی مزاج کی نشان دہی بھی کر دی لیکن ان کی غزل کا کوئی بھرپور تنقیدی جائزہ لینااس تحریر کا مقصود نہیں۔ یہ کام میں دوسرے صاحبان نقد و نظر کے لیے چھوڑتا ہوں۔
انہی کے ایک شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں جو ان کے عزم و حوصلے و فلسفہ خودی کا غماز بھی ہے۔۔
؎؎؎؎ غزل مختارؔ تم کتنی ہی اچھی کہہ کے رکھ دینا
مگر انگلی غزل پہ فطرتِ نقاد رکھے گی
آخر میں جناب مختار تلہری صاحب کو ان کے نئے شعری مجموعہ ”اضطرابِ دل“ کی تقریبِ رونمائی پر صمیم ِ قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گر قبول افتد زہے عزوشرف
وما علینا اللبلاغ
مبصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔!