اردو خبر دنیا

افغانستان می خواتین کاروباریوں کی تعداد میں اضافہ, چند سالوں میں خواتین کے ذریعہ چلائے جانے والے کاروبار کی تعداد 600 سے بڑھ کر 10,000 ہو گئی

افغانستان میں گزشتہ چند سالوں میں خواتین کے ذریعہ چلائے جانے والے کاروبار کی تعداد 600 سے بڑھ کر 10,000 ہو گئی ہے۔ دراصل خواتین کی ملازمتوں میں 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔

جب زینب فیروزی نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان خواتین کو اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے اور اپنی بچت کو کاروبار شروع کرنے میں لگا دیا۔

سلائی کی تربیت دینے سے حاصل ہونے والی 20,000 افغانی ( 300 ڈالر) کو قالین بُننے کے کام میں سرمایہ کاری کے ڈھائی سال بعد، اب وہ ایک درجن کے قریب ایسی خواتین کو ملازمت دیتی ہیں، جو اپنی ملازمتیں کھو چکی ہیں یا جنہیں طالبان حکومت کے قوانین کی وجہ سے اپنی تعلیم ترک کرنی پڑی ہے۔

39 سالہ خاتون نے اپنے دفتر سے، جہاں چمکدار رنگوں اور شاندار طور پر بنے ہوئے قالینوں اور تھیلوں کے نمونے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، اے ایف پی کو بتایا کہ مغربی صوبے ہرات میں اپنے کاروبار کے ذریعے اپنے چھ افراد کے خاندان کے “گھر کے تمام اخراجات بھی پورا کرتی ہیں۔”

افغانستان میں گزشتہ چند سالوں میں خواتین کے ذریعہ چلائے جانے والے کاروبار کی تعداد 600 سے بڑھ کر 10,000 ہو گئی ہے

ان کے شوہر، جو ایک مزدور ہیں، کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک میں کام نہیں مل سکا ہے۔

فیروزی ان بہت سی خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور دیگر افغان خواتین کی مدد کے لیے گزشتہ تین سالوں میں چھوٹے کاروبار شروع کیے ہیں، جن کی ملازمتوں میں 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تیزی سے کمی واقع ہوئی۔

کارباور اب بھی مردوں کے ہاتھ میں
دارالحکومت کابل میں ایک 28 سالہ ماں طوبہ زاہد نے، جب انہیں یونیورسٹی کی تعلیم ختم کرنے پر مجبور کیا گیا، تو اپنے گھر کے چھوٹے سے تہہ خانے میں جام اور اچار بنانا شروع کر دیا۔

طوبہ زاہد نے کہا، “میں کاروبار کی دنیا میں داخل ہوئی ہوں… خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے، تاکہ وہ ایک ایسی آمدنی حاصل کر سکیں جو کم از کم ان کی فوری ضروریات کو پورا کر سکے۔”

ان کے نصف درجن ملازمین، “ماں کا مزیدار گھریلو کھانا ” کے لیبل والے جام اور اچار بنانے میں مصروف تھے۔

اگرچہ خواتین مصنوعات کی تیاری کا کام کرتی ہیں لیکن افغانستان میں دکانیں چلانا زیادہ تر مردوں کا کام ہے۔

خواتین کاروباریوں کی تعداد میں اضافہ
افغانستان خواتین کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی چیئر وومن فریبہ نوری نے کہا کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ان کے ساتھ جڑنے والی رجسٹرڈ کاروباریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

نوری، جو خود 12 سال سے کاروبار چلا رہی ہیں، نے کہا، یہ تعداد “600 بڑی کمپنیوں سے بڑھ کر 10,000″ تک پہنچ گئی، جو بنیادی طور پر چھوٹے، گھریلو کاروبار اور چند بڑی کمپنیوں پر مشتمل ہیں۔”

خدیجہ محمدی، جنہوں نے 2022 میں پرائیویٹ اسکول میں تدریسی ملازمت سے محروم ہونے کے بعد اپنا ایک برانڈ لانچ کیا، جہاں اب 200 سے زائد خواتین کپڑے سلائی کرتی ہیں اور قالین بُنتی ہیں۔

چھبیس سالہ خدیجہ محمدی، نے کہا کہ مجھے اس پر فخر ہے کہ میں دوسری عورتوں کو خود مختار بننے میں مدد کر رہی ہوں۔”

اگرچہ محمدی جیسی کاروباری خواتین سے دیگر خواتین کو مدد مل رہی ہے، لیکن 5,000 سے 13,000 افغانی ماہانہ آمدنی ان کے تمام اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہے، اور بہت سی خواتین اب بھی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔