اردو خبر قومی

اتر پردیش کے فتح پور ضلع میں 185 سال قدیم مسجد کے ایک بڑے حصے پر انتظامیہ نے بلڈوزر چلا دیا, اس دوران تقریباً 2500 افراد کو احتیاطاً گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا

اتر پردیش کے فتح پور ضلع میں 185 سال قدیم مسجد کے ایک بڑے حصے پر انتظامیہ نے بلڈوزر چلا دیا، جبکہ دو دن بعد عدالت میں اس معاملے کی سماعت ہونی تھی۔ اس دوران تقریباً 2500 افراد کو احتیاطاً گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا۔

اترپردیش کے ضلع فتح پور میں مقامی حکام کا دعویٰ ہے کہ مسجد کے جس حصے کو منہدم کیا گیا ہے وہ غیرقانونی تھا اور باندہ۔ بہرائچ ہائی وے کی توسیع میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ لیکن مسجد کی انتظامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ للولی ٹاؤن کی نوری جامع مسجد 1839 میں تعمیر ہوئی تھی جبکہ اس کے اطراف سڑک 1956 میں بنائی گئی ہے۔

نوری مسجد انتظامیہ کمیٹی کے متولی محمد معین خان نے کہا،”مسجد 1839 میں تعمیر ہوئی جبکہ اس کے اطراف سڑک 1956 میں بنائی گئی، اس کے باوجود پی ڈبلیو ڈی(محکمہ تعمیرات عامہ) مسجد کے کچھ حصے کو غیر قانونی قرار دے رہا ہے۔”

مقامی انت‍طامیہ کا دعویٰ ہے کہ مسجد کے منہدم حصہ کی ‘غیرقانونی’ تعمیر گزشتہ تین سالوں میں ہوئی تھی اور اس سے باندا-بہرائچ روڈ کی توسیع میں رکاوٹ آرہی تھی۔

مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے ایک رکن مولانا صادق نے کہا، “ہمیں اس کارروائی کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا اور نہ ہی ہمیں کسی بھی چیز کو ہٹانے کی اجازت دی گئی۔”

انہدامی کارروائی کے دوران علاقہ عملاً پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا تھا
مقامی انتظامیہ نے کیا کہا؟
ضلعی انتظامیہ کے مطابق مسجد انتظامیہ کمیٹی کو تجاوزات کے حوالے سے دو نوٹس گزشتہ سال 17 اگست اور 24 دسمبر کو جاری کیے گئے تھے۔ کمیٹی نے حلف نامہ جمع کرایا کہ وہ تجاوزات کا حصہ ہٹائے گی۔

الہ آباد ہائی کورٹ میں 13 دسمبر کو اس کیس کی سماعت ہونے والی تھی

ضلعی انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے بعد میں الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس نے 13 دسمبر کو سماعت مقرر کی۔ انتظامیہ نے کہا کہ کمیٹی تجاوزات کو ہٹانے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے اسے مسمار کیا گیا۔

فتح پور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اویناش ترپاٹھی نے کہا کہ مسجد کا انہدام سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے مطابق کیا گیا ہے۔ ” کمیٹی کو تجاوزات ہٹانے کے لیے مناسب وقت فراہم کیا گیا۔ لیکن ناکام رہنے پر، سڑک کے کنارے تجاوزات کے زون کے اندر آنے والے حصے کو مسمار کر دیا گیا۔”

فتح پور کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) وجے شنکر مشرا نے کہا کہ “پی ڈبلیو ڈی نے مسجد کے بڑھے ہوئے حصے کو تجاوزات قرار دیا تھا۔ اسے منہدم کر دیا گیا ہے اور انہدام کی کارروائی کے دوران امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔”

ہندو شدت پسندوں نے چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد منہدم کردی تھی

سپریم کورٹ کی ہدایات
فتح پور میں مسجد کے انہدام کا معاملہ ریاستی حکام کی طرف سے من مانی مسماری کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے ملک گیر رہنما خطوط وضع کیے جانے کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے تاہم واضح کیا تھا کہ اس کی ہدایات کا اطلاق عوامی زمینوں پر غیر مجاز تعمیرات، جیسے سڑکوں، فٹ پاتھوں، اور آبی ذخائر یا عدالتی حکم کی بنیاد پرمسماری پر نہیں ہو گا۔

جسٹس بھوشن آر گوائی اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے پناہ کے حق کو آئین کے بنیادی حصے کے طور زور دیا تھا اور تحفظات کے سخت طریقہ کار کو لازمی قرار دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ہدایت دی تھی کہ ایگزیکٹو مجرمانہ الزامات سے منسلک جائیدادوں کو اپنی مرضی سے منہدم کرکے عدالتی عمل کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔

سپریم کورٹ نے انصاف کو یقینی بنانے اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے مستقبل میں عمارتوں کے منہدم کرنے کے حوالے سے کئی ہدایات متعارف کرائی ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ کوئی انہدام پیشگی اطلاع کے بغیر نہیں کیا جانا چاہیے اور وجہ بتاؤ نوٹس میں مکین کو جواب دینے کے لیے کم از کم 15 دن کا وقت دینا چاہیے، اور اسے رجسٹرڈ پوسٹ کے ذریعے بھیجا جانا چاہیے، نیز زیر بحث ڈھانچے پر نوٹس کو نمایاں طور پر چسپاں کیا جانا چاہیے۔ عدالت نے مذکورہ نوٹس میں مبینہ خلاف ورزی کی نوعیت، انہدام کی بنیادوں اور دفاع میں درکار دستاویزات کی فہرست بتانے کا حکم بھی دیا تھا۔

مسلمانوں اور اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل
ذرائع کے مطابق نوری مسجد کے مبینہ غیرقانونی حصے کو توڑنے کی کارروائی صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوئی۔ اس سے قبل تقریباً 500 میٹر علاقہ کو سیل کر دیا گیا تھا اور مسجد کے اطراف میں تمام دکانیں بند کرادی گئی تھیں۔ انہدامی کارروائی کے دوران علاقہ عملاً پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا تھا۔

اس درمیان تقریباً 2500 افراد کو احتیاطاً گھروں میں نظر بند کیے جانے کی اطلاع بھی ہے۔

نوری مسجد کے متولی محمد معین خان کا کہنا ہے کہ ان کے وکیل نے کسی بھی انہدامی کارروائی کے خلاف الٰہ آباد ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن فائل کی تھی جس کی سماعت 12 دسمبر کو ہونے والی ہے۔

مسجد کمیٹی نے پی ڈبلیو ڈی نوٹس کو اس دلیل کے ساتھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے کہ یہ عمارت 185 سال پرانی ہے اور محکمہ آثار قدیمہ کے ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ اس کا ایک حصہ گرانے سے مسجد کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔

مسلم تنظیموں، مذہبی اور سماجی جماعتوں نیز اپوزیشن سیاسی پارٹیوں نے بی جے پی کی قیادت والی حکومت پر “مخصوص طبقہ” کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔

اپوزیشن کانگریس کے قومی سکریٹری شاہنواز عالم نے کہا،”اگر کوئی ڈھانچہ 185 سال پرانا ہے تو اس کی حفاظت کے لیے میکانزم ہونا چاہیے۔ لیکن جب کسی مخصوص کمیونٹی کو ذلیل کرنے کے مقصد سے چن چن کر نشانہ بنانا ہو، تو ایسا واقعہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ریاستی نظام کے ادارے مسلم کمیونٹی کے ساتھ نہیں ہیں۔”

============
جاوید اختر، نئی دہلی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *