اردو خبر دنیا

پاکستان : خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی ’گوریلا کارروائیاں اب شہروں تک‘ پھیل رہی, قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی سراپا احتجاج ہیں

پاکستان میں سلامتی کی مجموعی صورتحال مخدوش نظر آتی ہے۔ ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی ’گوریلا کارروائیاں اب شہروں تک‘ پھیل رہی ہیں، جبکہ حکومت ان سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔

اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں ملک میں نئے سال کے اوائل میں ہی دہشت گردی کے واقعات میں 42 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔

بلوچستان حکومت نے گزشتہ چند برسوں کے دوران تین ہزار سے زائد بلوچ عسکریت پسندوں کے قومی دھارے میں شامل ہونے کے دعوے کیے ہیں۔ ان عسکریت پسندوں میں ایسے کمانڈر بھی شامل ہیں، جو کہ حکام کے بقول کئی کالعدم تنظیموں کی مقامی اور ملکی سطح پر سربراہی بھی کرتے رہے ہیں۔

بڑھتی ہوئی شورش پر صوبے کی بعض بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی سراپا احتجاج ہیں۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں کے متعدد رہنما عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

داخلی سلامتی کی حکومتی پالیسیوں میں نقائص کیا ہیں؟
اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے سربراہ عبداللہ خان کہتے ہیں کہ ملک میں عسکریت پسند تنظیموں کی آپریشنل صلاحیت، وسیع جغرافیائی رسائی اور جارحانہ رویہ قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”دیکھیں! پاکستانی حکومت ملک میں اس وقت، جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، انہیں کسی بھی طور پر جامع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حالیہ برسوں میں بلوچستان اور ملک کے بعض دیگر حصوں میں متنازع ریاستی پالیسیوں، انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کی چوری اور مصنوعی سیاسی قیادت مسلط کرنے کی وجہ سے مقامی نوجوان طبقہ سیاسی عمل سے دور ہوا ہے۔ اس صورتحال کا ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں، خاص کر پڑھے لکھے نوجوان بھی، اب اس شورش کا حصہ بن رہے ہیں، جو کہ صوبے میں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک اب ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکی ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول، ”عسکریت پسند تنظیمیں اب، جس حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کی ریاست مخالف گوریلا جنگ پہاڑوں سے شہروں میں داخل ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ رواں سال کے آغاز سے لے کر اب تک ملک بھر میں کم از کم عسکریت پسندوں کے 74 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 120 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 52 سکیورٹی اہلکار، 20 عام شہری اور 48 عسکریت پسند مارے گئے۔‘‘

مخدوش سکیورٹی صورتحال پر سیاسی قائدین کیا کہتے ہیں؟
بلوچستان کے سابق سینئر صوبائی وزیر اور پشتونخوا میپ کے مرکزی رہنما عبدالرحیم زیارتوال کہتے ہیں کہ ملک میں شدت پسندی میں بڑھتے ہوئے اضافے کی سب سے بڑی وجہ ایسی پالیسیاں ہیں، جن کا محور قومی مفاد کبھی نہیں رہا۔

رواں سال کے آغاز سے لے کر اب تک ملک بھر میں کم از کم عسکریت پسندوں کے 74 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ملک کسی دوسرے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ قیام امن کی مخدوش صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریاست کی، جو پالیسی ہے، وہ تضادات کا شکار ہے۔ قومی بیانیے کو عوامی سطح پر کوئی پذیرائی اس لیے نہیں مل رہی کیونکہ قومی اداروں اور عوام کے درمیان دوریاں بہت بڑھ چکی ہیں۔‘‘

رحیم زیارتوال کا کہنا تھا کہ قومی معاملات میں سیاسی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا، اسی لیے حکومت کی تمام قانون سازی غیرموثر ثابت ہو رہی ہے۔ ان کے بقول، ”پارلیمان میں، جو لوگ بیٹھے ہیں، وہ اکثر ریاستی ایما پر وہاں تک پہنچے ہیں، اس لیے ان کی قانون سازی عوامی مفاد میں درست ثابت نہیں ہو سکتی۔ غیرمنتخب لوگ، جب قومی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے تو عوام میں انہیں حقیقی نمائندوں کی طرز پر پذیرائی کبھی نہیں مل سکتی۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں موجود غیریقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریاست کو ملک کے حقیقی عوامی نمائندوں کو آن بورڈ لینا ہو گا۔‘‘

شدت پسندی کا راستہ لاحاصل ہے، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی
تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کی بحالی کے لیے سنگین اور سنجیدہ رویہ اختیار کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ آج بروز پیر بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”ہم بلوچوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ شدت پسندی کا راستہ لاحاصل ہے۔ ہم ایسے عناصر سے کس طرح مذاکرات کر سکتے ہیں، جو کہ صوبے میں نہتے اور معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں؟ دہشت گردوں کی جانب سے ریاست کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی حقیقت کو دہشت گردی سے نہیں توڑا جا سکتا۔ ہم نے 18 لاشیں بھی اٹھائیں اور گالیاں بھی سنیں، یہ مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔‘‘

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا بلوچستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے حکومت ”ہر حد تک‘‘ جائے گی۔

کوئٹہ میں وزیر اعظم کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اجلاس
پاکستانی وزیر اعظم میاں شہباز شریف، ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان سمیت اعلیٰ عسکری حکام نے آج کوئٹہ کا ایک خصوصی دورہ کیا۔ اس دوران وزیر اعظم کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں قیام امن کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

وزیراعظم کا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک میں قیام امن کی بحالی پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور ایسے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا، جو کہ قومی امن کو داؤ پر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ شورش زدہ علاقوں میں ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن مزید تیز کیے جائیں تاکہ شہریوں کی جان ومال کو درپیش خطرات دور ہو سکیں۔ اجلاس میں وزیر اعظم کو بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری، سکیورٹی صورتحال اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی خصوصی بریفنگ دی گئی۔

============
عبدالغنی کاکڑ

رواں سال کے آغاز سے لے کر اب تک ملک بھر میں کم از کم عسکریت پسندوں کے 74 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں

پاکستان میں انسداد پولیو مہم پھر سے دہشت گردوں کے نشانے پر

پاکستانی طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پولیو مہم میں شامل ایک سکیورٹی اہلکار کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ آج بروز پیر شروع ہونے والی رواں سال کی انسداد پولیو کی پہلی ویکسینیشن مہم کے دوران پیش آیا۔

پاکستان میں پولیو کی روک تھام کی مہم میں شامل ویکسینیٹرز پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر رواں سال حفاظتی انتظامات مزید بڑھا دیے گئے ہیں۔ پولیس اہلکار زرمت خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والا پولیس اہلکار پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے علاقے جمرود ٹاؤن میں پولیو ویکسینیٹرز کی حفاظت پر مامور تھا۔

زرمت خان کے مطابق، ”دو نامعلوم موٹرسائیکل سوار افراد نے اس پولیس کانسٹیبل پر فائرنگ کی، جس کے باعث وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔‘‘

دنیا بھر میں اب صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ممالک ہیں، جہاں پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ عسکریت پسند عناصر کی جانب سے کئی دہائیوں سے ملکی ویکسینیشن ٹیموں اور ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔

پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم ٹی ٹی ہی نے ایک بیان میں اس ”ٹارگٹڈ حملے‘‘ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ 2023ء میں پولیو کے فقط چھ نئے کیسز کے مقابلے میں گزشتہ سال کم از کم 73 نئے پولیو کیسز سامنے آئے تھے، جو پاکستان میں اس بیماری کے پھیلاؤ کی تشویشناک صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ زرمت خان نے کہا، ”اس واقعے کے باوجود متعلقہ علاقے میں پولیو ویکسینیشن مہم اب بھی جاری ہے۔‘‘

علاقے کے ایک سینیئر پولیس اہلکار عبد الحمید آفریدی نے بھی اس حملے کی تصدیق کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس حملے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”پولیو مخالف مہم پورے جوش و جذبے سے جاری رہے گی۔‘‘

پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار افراد کو اس وائرس سے محض ایک ویکسین پلا کر بچایا جا سکتا ہے، تاہم ایسے مسلسل حملوں کی وجہ سے پاکستان میں ابھی تک پولیو کی بیماری کو مکمل طور پر کنٹرول نہین کیا جا سکا۔

ماضی میں ملک میں موجود نام نہاد ‘مذہبی عناصر‘ کی جانب سے ایسے دعوے بھی سامنے آئے تھے کہ اس وائرس کے خلاف پلائی جانے والی ویکسین میں مبینہ طور پر سؤر سے حاصل کردہ اجزا اور الکوحل شامل ہوتے ہیں، جس کے باعث اس ویکسین کے خلاف عوامی جذبات میں مزید شدت آ گئی تھی۔

حالیہ برسوں میں سکیورٹی اہلکار ویکسینیٹرز کے ساتھ گھر گھر جا کر پولیو مہم کا حصہ رہے، تاہم گزشتہ سال ان مہمات میں میڈیکل ٹیموں کے ساتھ آنے والے درجنوں پاکستانی پولیس اہلکار عسکریت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے۔ ان متعدد حملوں کے نتیجے میں یہ پولیس اہلکار ہڑتال کرنے پر بھی مجبور ہو گئے تھے۔

ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک ‘سینٹر برائے ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز‘ کے مطابق، 2024 میں 1600 سے زیادہ افراد ایسی انسداد پولیو مہموں کے دوران کارکنوں پر کیے جانے والے حملوں میں ہلاک ہوئے۔ اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوں 2024 انسداد پولیو مہم کے لیے ایک انتہائی خطرناک سال ثابت ہوا۔

اسلام آباد حکومت نے کابل پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال کیے جانے کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان حکام کی طرف سے اس الزام کی تردید کی جاتی ہے۔

گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں پاکستانی صوبے بلوچستان میں پولیو ویکسینیٹرز کی ایک ٹیم پر ایک بم حملہ بھی کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں پانچ بچے بھی شامل تھے۔ بلوچستان میں، جس کی سرحدیں پڑوسی ملک افغانستان سے ملتی ہیں، 2024 میں سب سے زیادہ پولیو کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *