اردو خبر دنیا

یورپ اپنا دفاع خود کیسے کر سکتا ہے? معاشی اور مالی لحاظ سے اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یوکرین کی جنگ ختم کرنے کے لیے متنازعہ اقدامات نے پھر اس دیرینہ مسئلے کو اجاگر کر دیا ہے کہ یورپ اپنا دفاع خود کیسے کر سکتا ہے، اور یہ کہ معاشی اور مالی لحاظ سے اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کاروبار اور سیاست میں دھمکیوں کے استعمال نے یورپی رہنماؤں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، بالخصوص یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ایک ممکنہ ڈیل اور یورپی دفاع کے لیے امریکی مدد کے ممکنہ خاتمے کے حوالے سے۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے 2027ء تک برطانیہ کے دفاعی بجٹ کو جی ڈی پی کے 2.5 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے یورپ کو اپنی ”اجتماعی سلامتی‘‘ کو مضبوط بنانے اور یوکرین کی حمایت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

جرمنی میں سیاستدان اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ برطانوی وزیر اعظم کے زیادہ سے زیادہ یورپی دفاعی خودمختاری کے مطالبے کا جواب کیسے دیا جائے۔ انتخابات کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اتحاد سی ڈی یو/ سی ایس یو کے فریڈرش میرس اور سوشل ڈیموکریٹس کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دفاعی اخراجات میں اضافے کے لیے قرضے لینے کے قوانین میں نرمی پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔

روسی خطرہ کتنا سنگین ہے؟
کئی دہائیوں سے نیٹو کے یورپی رکن ممالک اپنے براعظم کے دفاع کا زیادہ تر بوجھ اٹھانے کے لیے اتحاد کی سب سے بڑی اور مضبوط معاشی طاقت امریکہ پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ اب یورپ کے رہنما اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ اس اتحاد کے تحت اب تک فراہم کی جانے والی امریکی مدد روک دیتے ہیں تو اس کے ممکنہ خاتمے کے جواب میں کیا کیا جائے۔

یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز (ای سی ایف آر) سے وابستہ دفاع اور سلامتی کے ماہر رافیل لوس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں ”کل برلن کے باہر روسی فوجیوں کے کھڑے ہونے‘‘ کا فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے متنبہ کیا کہ روس ”نیٹو اور یورپی یونینکو توڑنا چاہتا ہے تاکہ یورپ میں اس کا فوجی تسلط قائم ہو سکے۔‘‘

برسلز میں قائم تھنک ٹینک بروئگل بھی یورپی یونین کے کسی رکن ملک پر روسی حملے کو ‘قابل فہم‘ قرار دیتا ہے۔

تھنک ٹینک نے اپنے حالیہ تجزیے میں کہا، ” نیٹو، جرمنی، پولینڈ، ڈنمارک اور بالٹک ریاستوں کے جائزوں کے مطابق روس تین سے دس سال میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

یوکرین میں روس کی جنگ کے جواب میں، جرمنی نے ملک کی طویل عرصے سے نظر انداز کی جانے والی مسلح افواج کو جدید بنانے کے لیے 100 بلین یورو کا خصوصی فنڈ قائم کیا۔ اگرچہ ابھی تک اس فنڈ کی رقم مکمل طور پر خرچ نہیں ہوئی ہے، لیکن مختص ضرور کی جاچکی ہے۔ تاہم، جرمنی کے دفاعی بجٹ میں مستقل اضافے کا ہدف ابھی تک حاصل نہیں ہوا۔

امریکی فوج کا متبادل، ایک چیلنج
بروئگل کے ماہرین اقتصادیات نے اندازہ لگایا ہے کہ 2024ء میں یوکرین کے لیے کُل 42 بلین یورو کی فوجی امداد میں سے امریکی امداد 20 بلین یورو تھی۔ انہوں نے اپنے تجزیے میں کہا کہ امریکہ کی جگہ لینے کے لیے یورپی یونین کو اپنے جی ڈی پی کا مزید صرف 0.12 فیصد خرچ کرنا پڑے گا۔

بروئگل نے اس بات کا بھی خاکہ پیش کیا ہے کہ اگر امریکہ نیٹو سے نکل جاتا ہے تو یورپ کو بے سہارا ہونے سے بچنے کے لیے کیا کچھ درکار ہو گا۔ امریکی لڑاکا بریگیڈز، بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کی جگہ لینے کے علاوہ، انٹیلی جنس، مواصلات اور کمانڈ انفراسٹرکچر میں یورپی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہوگی جو بڑے، پیچیدہ فوجی یونٹوں کی تعیناتی کے لیے ضروری ہیں۔

کیپٹل اکنامکس میں یورو زون کے ڈپٹی چیف اکانومسٹ جیک ایلن رینالڈز کا اندازہ ہے کہ یورپی دفاعی اخراجات میں نمایاں اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مختصر مدت کے لیے دفاعی اخراجات میں سالانہ 250 بلین یورو کا اضافہ مناسب ہو گا۔ اس طرح یورپی یونین کا دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے تقریباﹰ 3.5 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

یورپ کی اسلحہ سازی کی صلاحیت کیسے بڑھائی جائے؟
ایلن رینالڈز نے اس بڑے پیمانے پر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کئی طریقے بھی تجویز کیے ہیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ یورپی انویسٹمنٹ بینک (ای آئی بی) کی تنظیم نو کی جائے یا ایک نیا ”ری آرمامنٹ بینک‘‘ تشکیل دیا جائے تاکہ ممالک کے قومی بجٹوں پر کم سے کم اثر کے ساتھ دفاعی شعبے کی کافی حد تک مدد کی جاسکے۔

متبادل کے طور پر ، ای آئی بی دفاعی کمپنیوں کو قرضے جاری کرسکتا ہے یا خاص طور پر فوجی منصوبوں کے لیے بانڈز تشکیل دے سکتا ہے۔ یہ طریقہ کار براہ راست فوجی اہلکاروں یا سازوسامان کی فنڈنگ نہیں کرے گا بلکہ پیداوار کو بڑھانے کے لیے یورپی اسلحہ سازوں کی مالی اعانت کرے گا۔

ایلن رینالڈز کے لیے ‘سب سے سادہ طریقہ’ یہ ہوگا کہ یورپی یونین 750 بلین یورو کے وبائی بحالی فنڈ کے مساوی ایک نیا مشترکہ قرض پروگرام شروع کرے، جسے نیکسٹ جنریشن ای یو کا نام دیا گیا تھا۔

یورو زون کی معیشت کو فروغ؟
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یورپی کاروں پر زیادہ محصولات عائد کرنے کی دھمکی پر خدشات نے سرمایہ کاروں کو آٹو اسٹاک فروخت کرنے اور دفاعی کمپنیوں میں حصص خریدنے پر مجبور کیا ہے۔ ان کے مطابق ان کمپنیوں کی ترقی کا بہت امکان ہے۔

ای سی ایف آر کے ماہر رافیل لوس کا یہ بھی خیال ہے کہ جرمنی کی فوج کو وسعت دینے سے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ملک کی ترقی کی شرح میں کمی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”اگر آٹوموٹیو سپلائی چین میں ملازمتوں کو دفاع سے متعلق سامان کی پروڈکشن پر منتقل کرکے برقرار رکھا جا سکتا ہے، تو یہ یقینی طور پر فائدہ مند ہوگا،‘‘ تاہم انہوں نے اس سے بہت زیادہ معاشی اثرات کی توقعات رکھنے کے حوالے سے بھی متنبہ کیا۔

یہ مضمون پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع ہوا۔