اردو خبر دنیا

پاک بھارت جنگ : نواز شریف خاموش کیوں؟ پاکستان کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو گی؟

پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں پچیس بھارتی ڈرون طیارے مار گرائے ہیں۔ ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بھارت پر جوابی حملہ اب ناگزیر ہو چکا ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان احمد شریف چوہدری نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت نے اسرائیلی ساختہ ڈرونز پاکستان پر حملوں کے لیے بھیجے، جنہیں ناکام بنا دیا گیا۔

بتایا گیا ہے کہ ان ڈرون حملوں کے نتیجے میں سندھ کے علاقے سکھر کی میانو بستی میں ایک شہری ہلاک بھی ہو گیا جبکہ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے قریب فوڈ اسٹریٹ پر ایک بھارتی ڈرون گرنے سے ایک اور شہری شدید زخمی ہوا۔ یہ مقام فوجی تنصیب حمزہ کیمپ کے قریب واقع ہے۔

ڈی ڈبلیو نے راولپنڈی میں ڈرون حملے کی جگہ کا دورہ بھی کیا، جہاں فوڈ اسٹریٹ کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا تھا جبکہ باہر جمع عوام ’بھارتی جارحیت‘ کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے اور سخت جوابی کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

یہ پاکستان کی سرزمین پر بھارت کا دوسرا مبینہ حملہ ہے۔ اس سے قبل بھارت نے بہاولپور، مریدکے، مظفرآباد اور کوٹلی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں کئی اہداف کو نشانہ بنایا تھا، جن میں اکتیس افراد مارے گئے تھے۔ پاکستان نے ان حملوں کے جواب میں دفاع کرتے ہوئے بھارت کے پانچ طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاکستان کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو گی؟
اگرچہ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51 کے تحت جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے لیکن کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ پاکستان فوری طور پر بھارت پر حملہ کرنے کا انتخاب نہیں کرے گا کیونکہ مبینہ طور پر بھارتی طیارے گرانے کے بعد اسے ایک برتری حاصل ہو چکی ہے۔

بین الاقوامی تعلقات اور دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بھارت پر جوابی حملہ اب ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ جب تک پاکستان مؤثر جوابی کارروائی نہیں کرتا، بھارت اپنی جارحیت سے باز نہیں آئے گا۔

سکیورٹی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ حکومت بھارت پر جوابی حملے کا عندیہ دے رہی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ حملہ فوری طور پر کیا جائے۔ ان کے مطابق سفارتی ذرائع استعمال کرکے صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔

تاہم ان ڈرون حملوں کے بعد سابق وزیر دفاع نعیم خالد لودھی نے کہا کہ صورتحال اب بدلتی جا رہی ہے اور بھارت کی جانب سے حالیہ ڈرون حملے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان بھارت پر ایسا حملہ کرے، جس سے بھارت کو یہ اندازہ ہو کہ پاکستان کس طرح جواب دے سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا حملہ ضروری ہے تاکہ بھارت کی جانب سے مزید جارحیت کو روکنے کے لیے ایک مؤثر روک تھام کی جا سکے۔

نعیم لودھی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے بڑے جنگی منصوبے ہیں اور وہ صرف پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے ڈرون نہیں بھیج رہا بلکہ اس کا مقصد پاکستان کے اسٹریٹجک مقامات کی معلومات حاصل کرنا ہے۔

کیا یہ اشتعال انگیزی کی کوشش ہے؟
لودھی کا کہنا ہے، ’’یہ چھوٹے ڈرون زیادہ تباہی نہیں پھیلا سکتے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اور بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اب حملہ کرے تاکہ وہ مزید اشتعال انگیزی کے لیے جواز بنا سکے۔‘‘

سفارتی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بھی اس رائے سے متفق ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی اور اب پاکستان کے لیے جوابی کارروائی کرنا ناگزیر بنتا جا رہا ہے۔

سابق سفارتکار اور دو بار اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب رہ چکنے والے منیر اکرم کا کہنا ہے کہ بھارت نے میزائل حملوں کی شروعات طیاروں کے ذریعے کی، ’جنہیں ہم نے پانچ بھارتی طیارے مار گرا کر ناکام بنایا۔ یہ بھارت کی موجودہ حکومت، بالخصوص نریندر مودی کے لیے ایک شرمندگی کا باعث بن گیا ہے، اسی لیے انہوں نے دوبارہ پاکستان کو اشتعال دلانے کے لیے ڈرونز بھیجے ہیں، اور اب پاکستان کا جواب دینا ناگزیر ہو چکا ہے‘۔

’صورتحال مزید کشیدہ نہیں کرنا چاہیے‘
پاکستانی تجزیہ نگار منیر اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر ہم اب جواب نہیں دیتے تو یہ بھارت کے لیے ایک معمول بن جائے گا کہ جب چاہے پاکستان پر حملہ کر دے۔‘‘

ایسے وقت میں جبکہ دفاعی اور سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا جوابی حملہ ناگزیر ہو چکا ہے، وہیں کچھ ماہرین ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ صورتحال خطے کے لیے ایک خطرناک موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے اور دونوں ایٹمی طاقتوں کو ہوش مندانہ فیصلے کرنے چاہییں اور عوامی دباؤ پر عمل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

بین الاقوامی امور کی ماہر اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی سبکی سے بچنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ ابتدائی حملوں میں طیارے کھونے کے بعد بھارتی حکومت نے خود کو کمزور پوزیشن پر محسوس کیا، اس لیے انہوں نے ایک اور حملہ کیا اور اب پاکستان سے جوابی کارروائی کی توقع کی جا رہی ہے۔

لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ ‘یہ صورتحال خطے کے امن کے لیے نہایت خطرناک ہے اور اس میں چین اور روس جیسے دیگر ممالک بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے اور مزید کشیدگی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے‘۔

=======
عثمان چیمہ ادارت: عاطف بلوچ

پاک بھارت جنگ: نواز شریف خاموش کیوں؟

تنویر شہزاد

نواز شریف کی خاموشی نے سیاسی و عوامی حلقوں میں بھی ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کی خاموشی بھارت کے ساتھ دیرینہ تعلقات، کاروباری مفادات یا سیاسی سمجھوتوں کا نتیجہ ہے؟ یا پھر وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں؟

پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ حالیہ تنازعے میں اب تک 31 پاکستانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ لاہور میں بھارتی ڈرون حملوں میں چار فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔ اس نازک صورتحال میں پاکستان کے سیاسی حلقوں اور عوام کی نظریں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پر مرکوز ہیں، جو اس بحران کے دوران غیر معمولی طور پر خاموش ہیں۔ لاہور کے شہری، جہاں نواز شریف مقیم ہیں، ان کی طرف سے کسی واضح بیان یا کردار کے منتظر ہیں لیکن نواز شریف کی پراسرار خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

نواز شریف کی خاموشی کی وجوہات
سینئر تجزیہ کار ارشاد احمد عارف نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف جیسے تجربہ کار سیاستدان کی خاموشی عوام میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ ان کے بقول، ”یا تو نواز شریف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے، یا پھر وہ سیاست سے مکمل کنارہ کشی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔‘‘

عارف نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اپنے لیڈر نواز شریف کے اس رویے کو ثالثی کی خواہش سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا نواز شریف امریکہ، چین یا سعودی عرب ہیں، جو پاک بھارت تنازع میں ثالثی کر سکتے ہیں؟

نواز شریف کو کیا کرنا چاہیے؟
ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ یہ وقت پاک فوج اور قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔ نواز شریف کو عوام اور اپنی پارٹی کو متحرک کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کی کھل کر مذمت کرنا چاہیے، ”انہیں عالمی رہنماؤں سے رابطے کر کے بھارت کی جانب سے شہریوں پر حملوں کی حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر، نواز شریف کو مودی کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ خطے کے امن کو خطرے میں نہ ڈالیں۔‘‘

ارشاد عارف نے سن 2015 کے اس واقعے کا حوالہ دیا، جب مودی کابل سے دہلی جاتے ہوئے لاہور میں نواز شریف کے گھر رکنے آئے تھے اور شریف خاندان کی ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جیل میں قید ایک سیاسی رہنما (عمران خان) اپنے اختلافات بھلا کر قوم کے ساتھ یکجہتی دکھا سکتا ہے، تو نواز شریف کی خاموشی کی کیا مجبوری ہے؟

کیا کاروباری مفادات رکاوٹ ہیں؟
شریف خاندان کے بھارت کے ساتھ مبینہ کاروباری تعلقات پر سوال اٹھاتے ہوئے عارف نے کہا کہ پاکستان نے نواز شریف کو تین بار وزیر اعظم، ان کے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم اور بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنایا۔ ان کے مطابق، شریف خاندان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن نواز شریف کو کسی بھی مجبوری کو بالائے طاق رکھ کر قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور بھارتی اقدامات کی مذمت کرنا چاہیے۔

سیاسی قیمت کا خدشہ
کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نواز شریف کی خاموشی انہیں سیاسی طور پر مہنگی پڑ سکتی ہے۔ عارف نے کہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے بیانات نواز شریف کی جگہ نہیں لے سکتے، ”نواز شریف کی اپنی حیثیت ہے۔ جب ملک کی بقا داؤ پر ہو، انہیں قومی پالیسی کی ترجمانی کے لیے خود سامنے آنا چاہیے۔‘‘

سیاسی سمجھوتہ یا نظریاتی اختلاف؟
تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شریف خاندان ہمیشہ سے بھارت کے حوالے سے نرمی کا رویہ رکھتا ہے۔ ان کے مطابق، نواز شریف کی خاموشی کی وجہ کوئی سیاسی سمجھوتہ ہو سکتا ہے، جو اب ان کے لیے زنجیر بنتا جا رہا ہے۔ سلمان عابد نے کہا کہ اگرچہ مسلم لیگ (ن) وفاق میں اکثریتی حکومت رکھتی ہے، نواز شریف کی خاموشی سے لگتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے باوجود کھل کر بات نہیں کر سکتے۔

سینئر کالم نگار دردانہ نجم نے کہا کہ نواز شریف کا پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہمیشہ ایک واضح موقف رہا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ماضی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق، نواز شریف کے لیے اپنے دیرینہ موقف کے خلاف بولنا آسان نہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ موجودہ حکومت اور نواز شریف کے خیالات میں ہم آہنگی کا فقدان ہو سکتا ہے، جو ان کی طویل خاموشی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

خاموشی توڑنے کی کوشش؟
چند روز قبل نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کی تھی، لیکن اس وقت بھی وہ کوئی بیان جاری کرنے سے گریزاں رہے۔ تاہم، سوشل میڈیا پر بڑھتی تنقید کے بعد آج بروز جمعرات نواز شریف نے شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی اور کہا کہ وہ پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *