اردو خبر دنیا

عرب ممالک کے عوام میں فلسطینیوں کی حمایت میں اب بہت اضافہ ہو چکا ہے

گزشتہ برس سے جاری غزہ کی جنگ کے دوران عرب ممالک کے عوام میں فلسطینیوں کی حمایت میں اب بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ تاہم عرب حکمران اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی عوامی آوازوں کو زیادہ تر نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

حماس اور اسرائیل کے مابین سات اکتوبر 2023ء کو شروع ہونے والی جنگ اب لبنانی اسرائیلی سرحد تک پھیل چکی ہے جبکہ اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے اس تنازعے کی شدت میں مزید اضافے کی علامت ہیں۔ ایسے میں عرب حکومتیں انتہائی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

عرب ممالک کسی بھی اسرائیلی حملے کی ”روایتی انداز میں مذمت‘‘ کرتے ہیں لیکن ماضی قریب میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے کسی ایک بھی ملک نے ابھی تک اپنی کسی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی ہے۔

گزشتہ ماہ بحرین کے دارالحکومت منامہ میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک 27 سالہ شہری احمد کا کہنا تھا، ”ہماری حکومت نے بھی دیگر عرب حکومتوں کی طرح اپنے لوگوں کے مطالبات کو نظر انداز کیا ہے، جس میں اسرائیلی سفیر کی بے دخلی بھی شامل ہے۔‘‘

اس بحرینی نوجوان نے کسی انتقامی کارروائی کے خوف سے اس کا پورا نام ظاہر نہ کیے جانے کی درخواست کی تھی۔

بحرین نے مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر اسرائیل کو امریکہ کی ثالثی میں سن 2020 کے ابراہیمی معاہدے کے تحت تسلیم کیا تھا اور انہیں اسرائیل کی سفارتی و فوجی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ مصر اور اردن، جنہوں نے بالترتیب سن 1979 اور سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کیے تھے، اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگانے کے باوجود ان معاہدوں پر کوئی نظر ثانی نہیں کی۔

تاہم اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا کہ اس معاہدے پر اب ‘گرد پڑ چکی‘ ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا اسے ختم کرنے سے مملکت اردن یا فلسطینیوں کو کوئی مدد ملے گی؟

صرف سعودی عرب نے عوامی سطح پر اپنی پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے ممکنہ قیام کے حوالے سے بات چیت روک دی گئی ہے۔

اسرائیل کی غزہ میں جنگ نے ایک ایسے خطے میں غیر معمولی احتجاج کو جنم دیا ہے، جہاں آمرانہ حکومتیں عام طور پر اختلاف رائے کو دبا دیتی ہیں۔ بحرین اور مراکش کے ساتھ ساتھ عمان میں بھی ایک ریلی کے دوران ”تعلقات کا قیام غداری ہے‘‘ جیسے نعرے بلند ہوئے۔

مراکش میں نیشنل ایکشن گروپ برائے فلسطین سے تعلق رکھنے والے راشد فیلولی کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران اس ملک میں 5000 دھرنے دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے حق میں ”ایک نئی نسل متحرک‘‘ ہونے کی امید ہے۔

عرب ممالک خاموش کیوں ہیں؟
واشنگٹن میں عرب گلف اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ کے تجزیہ کار حسین ابیش کہتے ہیں کہ عرب حکومتیں، جو اسرائیل کے قریب آ گئی ہیں، ان کے پاس ”اپنے اپنے جواز ہیں … جو قابل فہم بھی ہیں۔‘‘ ان کے مطابق ان میں سے کوئی بھی ملک جنگوں کی بنیاد پر ان سے دستبردار ہونے پر غور نہیں کر رہا۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے شمالی افریقہ کے لیے ڈائریکٹر ریکارڈو فابیانی کہتے ہیں کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں ملنے والے سکیورٹی، سفارتی اور فوجی فوائد کو اہمیت دے رہی ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا، ”یہاں پر عوامی دباؤ کو نہ ماننے کا سوال بھی کھڑا ہوتا ہے، جو ان میں سے بہت سے ممالک میں ایک خطرناک مثال قائم کرے گا۔‘‘

تجزیہ کار حسین ابیش کے مطابق اسرائیل کے خلاف عوامی مطالبات کے سامنے عرب رہنما انتہائی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کو دبانے سے بدانتظامی، بے روزگاری یا زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات جیسے مسائل پر مبنی بدامنی پھیل سکتی ہے۔

ابیش نے مزید کہا کہ ان ممالک میں عوامی مظاہروں کی اجازت دینے سے محفوظ طریقے کے ساتھ ”بھاپ خارج‘‘ کی جا سکتی ہے۔

عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک مصر میں احتجاج کے خطرے کو بہت زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ وہاں 20 اکتوبر 2023 کے بعد سے کسی بھی ریلی کی اجازت نہیں دی گئی۔ تب ریاست کی طرف سے منظور شدہ احتجاج قاہرہ کے تحریر اسکوائر کی طرف بڑھ گیا تھا۔ یہ سن 2011 کی بغاوت کی جگہ ہے، جس نے دیرینہ صدر حسنی مبارک کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا تھا۔

مصری باشندے طویل عرصے سے فلسطینی کاز کے حامی ہیں اور انہوں نے احتجاجی مظاہروں کی بجائے ان کمپنیوں کی مصنوعات کے خلاف مہم چلائی، جنہیں اسرائیل نواز سمجھا جاتا ہے۔

”فلسطین فقط فلسطینیوں ہی کا مقصد نہیں‘‘ کے لوگو والی موبائل فون ایپ دس لاکھ سے بھی زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کی گئی۔ اس ایپ کے ذریعے صارفین بارکوڈ اسکین کرنے سے یہ جان سکتے ہیں کہ آیا ان کی طرف سے خریدی جانے والی مصنوعات بائیکاٹ کردہ مصنوعات کی فہرست میں شامل ہیں۔

ریکارڈو فابیانی کہتے ہیں کہ ان کوششوں کا اب تو ”کوئی اثر نہیں‘‘ ہے لیکن ان کا طویل المدتی اثر اہم ہو سکتا ہے۔